بجٹ اور گدھے کی ڈھینچو ڈھینچو

Supplementary budget imposes new taxes

تحریر: عبید شاہ

حضرت بایزید بسطامی ؒ  کا تعلق ایران کے شہر بسطام سے تھا۔ حضرت با یزید بسطامیؒ اپنے زمانے کے کبار اولیاء کرام میں سے ہیں۔ آپ کی جلالت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت جنید بغدادی ؒ جیسے بزرگ بھی آپ کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ حضرت با یزید بسطامی ؒ کی ذات بابرکات ہم میں ایسی ہے جیسے جبرائیل ؑ کی شخصیت فرشتوں میں۔

حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک واقعہ کافی مشہور ہے جس میں انہوں نے درسمان کے عیسائی پادری کے باسٹھ سوالوں کا جواب دے کر پانچ سو عیسائی راہبوں کو مشرف با اسلام کیا تھا۔ ان باسٹھ سوالات اور ان کے جوابات  کا تفصیلی ذکر کتب اور گوگل بابا سے آپ کو  با آسانی مل جائیگا۔ ان باسٹھ سوالوں میں سے ایک سوال راہبوں نے یہ کیا تھا:

گدھا ہینگتے وقت کیا کہتا ہے؟
جس کا جواب حضرت بایزید بسطامی نے کچھ یوں دیا

گدھا ہینگتے وقت شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے  اللہ تعالی ناجائز ٹیکس لینے والے پر لعنت فرمائے
لَعَنَ اللّٰہ ُالْعَشَّار۔

سنن نسائی کی روایت ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مرغ کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ کی پناہ طلب کرو کیونکہ وہ شیطان کو دیکھتا ہے۔  

گدھے کے کلمے کو سمجھنے کے بعد مجھے پاکستان کا متوسط طبقہ بھی گدھا ہی لگتا ہے۔ گدھے جیسی محنت و مشقت اور سخت زندگی اور ہینگے تو  اشرافیہ کی ناگواری الگ برداشت کرتا ہے۔ گدھے کی کانوں کو ناگوار لگنے والی یہ ڈھینچو ڈھینچو ناجائز بوجھ لادنے والے،ناجائز ٹیکس ڈالنے والے استحصال کرنے والے اور مزدور کی مزدوری میں ڈنڈی مارنے والے پر فقط لعنت ہے کہہ کر بیچارہ ڈھچوں ڈھیچوں کر کے اپنے زندہ ہونے اور رب کی پناہ میں آنے کا اعلان کرجاتا ہے۔

ہم وہ گدھے ہیں  جو بے جا بوجھ اُٹھا کر بھی اُف تک نہیں کرتے۔ چند دن قبل ہی حکومت نے منی بجٹ پیش کیا ہے جو کہ گزشتہ برسوں کی طرح عوام کو سہولت دینے کے لیے ہی مرتب کیا گیا ہے لیکن بجٹ کو دیکھتے ہوئے نہ صرف عوام بلکہ معاشی ماہرین بھی زور زور سے ہینگ رہے ہیں۔

سنا ہے گدھوں کے چارے پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق روائٹرز سے بات کرتے ہوئے ای اے سی کے رکن اور نسٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اشفاق حسن خان نے کہا کہ اس میٹنگ میں معمول سے ہٹ کر تجاویز پر غور کیا گیا، جیسے سال بھر تک ملک میں پنیر، سمارٹ فونز، پھل اور مہنگی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی عائد کر دی جائے گی جس کی مدد سے چار سے پانچ ارب ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے۔

آپ دیکھیں کہ ملک میں کتنی بڑی تعداد میں پنیر آ رہا ہے۔  مارکیٹوں میں پنیر بھرا پڑا ہے۔ کیا ہمارے ملک کو پنیر کی ضرورت ہے، جہاں ڈالر کی اتنی قلت ہو کہ وہ پنیر درآمد کرے؟ اس کے جواب میں سابق وزیر خزانہ یہ فرما گئے کہ حکومت کی اس پالیسی سے لینڈ مافیا اور آٹو مافیا جیت گیا نان ٹیکس پئیر گاڑی جائیداد خرید سکتا ہے لیکن ٹیکس پئیر کے لیے مشکلات ہی مشکلات۔

ماہر معاشیات مزمل اسلم بھی ایک ٹاک شو میں اپنا سر دھنتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ چوبیس لاکھ سالانہ کمانا اس ملک میں جرم بنادیا گیا ہے اور تو اور کھانے کی چیزوں کی درجہ بندی بھی لگژری اور نان لگژری کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔ پینشنرز کی پینشن میں دس فیصد اضافہ تو کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ پینشنرز کی تعداد شاید ایک فیصد بھی نہیں۔

گیس کی قیمت میں اضافے سے صرف یوریا کی قیمت میں 128 روپے اضافہ ہوگا اور تو اور سی این جی،سریا،سیمینٹ، اشیاء خوردونوش میں پانچ سے پچیس فیصد تک اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ امیر آدمی اپنی آمدنی کا پانچ فیصد اور غریب اپنی آمدنی کا تیس فیصد پیٹ پر لگاتا ہے جبکہ 60 سال میں ایک گھر بنانے والا شخص اسے بیچ کر کہیں اور گھر نہیں خرید سکتا۔


ماہرین کی اس آہ وبکا کے بعد گدھا ہینگے یا نہ ہینگے، اُسے مزید گدھا بنانے کے لیے آنکڑو کا ایسا ٹوئنٹی ٹوئنٹی دکھایا جاتا ہے جس میں مہنگائی میں بھلے تیس فیصد اضافہ ہوجائے لیکن آنکڑے8/9 سےآگے ہی نہیں بڑھتے۔ بجٹ ہوتا تو گدھوں کو ریلیف دینے کے لیئے ہی ہے لیکن اضافی بوجھ بھی ان کے ہی حصے میں آتا ہے  اور بالآخر ڈھینچو ڈھینچو کرتے ہوئے  مان ہی جاتے ہیں اور مانے بھی کیوں نہ، جیسے گدھے کی رفتار بڑھانے کے لیے گدھا بان ڈبے میں چند کنکر ڈال کر اس کے کان کے پاس بجاتا ہے بالکل ایسے ہی آنکڑوں اور عوام کی سہولت کا نام لے کر ان گدھوں کو بھی رام کرلیا جاتا ہے ویسے بھی ان گدھوں کے ڈھینچوں ڈھینچوں میں نہ ہی  خدا کی پناہ ہے اور نہ ہی ظالم کے لیئے لعنت۔



اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدان صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے  فیس بک  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔



مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.