دل کے زخم !


تحریر: شاہد انجم

سینکڑوں نفوس پر مشتمل گاؤں کے چوہدری عاشق حسین اسی سال کی عمر میں دنیائے فانی سے کوچ کرگیا۔ کئی مربع زمین کا مالک تھا، نوکر چاکر اور اس دور کی سواری بھی ہمہ وقت اس کے ڈیرے پر موجود رہتی تھی۔ کسی کے گھر غم ہو  یا خوشی چوہدری صاحب اطلاع ملنے پر کبھی بھی ہاتھ پر باندھی گھڑی کی طرف نہیں دیکھتے تھے، فوری طور پر پہنچنا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔

اس دور میں شادیوں کی تقریبات کئی کئی روز تک جاری رہتی تھی، دور دراز سے آنے والے گاؤں کےکسی کے بھی مہمان کو ان کے ڈیرے پر رہنے کی اجازت ہوتی تھی بلکہ زیادہ تر گاؤں کے مہمانوں کیلئے کھانا، ناشتہ، سونے کیلئے بستر بھی چوہدری صاحب ہی مہیا کرتے تھے۔

بیٹیوں کی شادیوں میں تو ان کا کردار کسی ماں، باپ، بڑے بھائی اور خادم سے کم نہیں تھا۔  اکثر بارات وہ ایک دن کیلئے اپنے ڈیرے پر روک لیا کرتے تھے اور گاؤں کے بننے والے داماد کو بہت شفقت سے مل کر اسے یقین دلاتے تھے کہ جس لڑکی سے اس کی شادی ہو رہی ہے و ہ اسے میری ہی بیٹی سمجھے اور اگر اس سے کوئی بھول یا غلطی ہوجائے تو میرے دروازے آپ  کیلئے کھلے ہیں مجھے خاموشی سے آکر ضرورر بتائیے گا تاکہ میں اس کا سد باب کر سکوں۔

وقت گزرہا تھا مگر اریب قریب کے گاؤں کے بعض نام نہاد جاگیر دار ان کا تمسخر اڑاتے تھے اور ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ جو بھی کر رہے ہیں یہ ایک دکھاوا ہے اور وہ اس کا بے جا فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن ان باتوں کا اندازہ انہیں اس وقت ہوا جب چوہدی صاحب دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے اور اس کے بعد گاؤں کے ماحول میں تبدیلی آگئی۔ لوگ ایک دوسرے سے دور ہونے لگ گئے اور پھر معلوم ہو ا کہ چوہدری صاحب کا جو کردار تھا اس کے گاؤں پر ان کے جانے کے بعد کیا اثرات مرتب ہونے لگے۔

وہ لوگ جو چوہدری صاحب کے کردار سے جلتے تھے ان کو اس بات کا احساس بھی ہوگیا کہ کسی بھی ایسے شخص کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرنا مناسب نہیں تھا اور اب شرمندگی ان پر طاری تھی مگر وقت کا پہیہ نہیں رکتا، کیا فائدہ جو نقش انہوں نے چوہدری صاحب کے اہلخانہ کے دل پر چھوڑے تھے اب وہ معذرت کرنے سے بھی شاید نہ مٹ سکیں۔

یہ قصہ ملک کی تین بار خاتون اول کلثوم نواز کی زندگی سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ کلثو م نواز پچھلے دو برس سےسرطان کے موضی مرض میں مبتلا تھیں اور انہیں علاج کیلئے بیرون ملک لےجایا گیا جہاں وہ ایک نجی اسپتال میں زیر علاج رہیں۔ ہر پل انہوں نے زندگی اور موت کی کشمکش میں گزارا۔ کلثوم نواز کی بیماری کے وقت ان کے خاندان پر کیا گزر رہی تھی اس کا اندازہ شاید ان کے مخالف نہیں بلکہ ان کے اپنے ہی لگا سکتے تھے۔

 ایک طرف اس کی بیماری اور دوسری طرف سیاسی پنڈتوں کی جانب سے طنز کے نشتر برسائے جا رہے تھے مگر انہیں کسی بھی طرح سے کوئی جواب نہیں دیا گیا لیکن سیاست میں ایسی روایات نے جنم لیا جو آنے والے وقت کے لئے بہت ہی نہ مناسب ہیں۔

کلثوم نواز سے قبل ملک کی دو بار وزیر اعظم شہید بینظیر بھٹو پر بھی اسی طرح کے الزامات لگائے جاتے تھے۔ ان کی زندگی میں بھی انہیں بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اگر ہم ماضی میں جائیں تو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی نہیں بخشا گیا مگر افسوس کے ساتھ کہنا  پڑتا ہے کہ تینوں خواتین جب جہان فانی سے رخصت ہوئیں تو ان کی کردار کشی کرنے والے ندامت کے باعث منہ چھپاتے پھر رہے تھے۔


کیا ان خواتین کی کردار کشی سے اب بھی ہم کچھ سیکھ پائے ہیں یا نہیں، ذرا سوچئے!



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.