نواز شریف یا قیدی نمبر!



تحریر: شاہد انجم

مونا لیزا جب دوسری بار دلہن بننے لگی تو اہلخانہ کی طرف سے یہ افسوس کیا جا رہا تھا کہ آج دوسری بار اس کے ہاتھوں میں مہندی کیسے لگائی جائے گی۔  مہندی کا رنگ زیادہ نکھر جائے تو آتش کی شکل اختیار کرتی ہے۔ ہاتھ پیلے کرنا ایک روایت ہے مگر ہاتھو ں پر آگ جیسے نمونے نظر آنے لگے تو وہ جلنے لگتے ہیں۔  

اچانک آواز آئی اپنی چوڑیوں کا سائز بتانا کیونکہ مارکیٹ کھلنے کا وقت ہو چکا ہے تاکہ آپ کی چوڑیاں خریدی جا سکیں۔ مونا لیزا نے جواب دیا کہ بیس  سال قبل میں نے جو چوڑیاں پہنی تھیں اس کا سائز مجھے اس لیے معلوم نہیں کیونکہ جب میں ا پنے مقام سے گری تو سوچا شاید میں اب کبھی سہاگن نہیں بن پاؤں گی، لیکن یہ سب قسمت کا کھیل ہے کہ میں آج ایک بار پھر زندگی  کے اس موڑ پر آگئی ہوں جہاں مجھے اسی طرح سنوارا جارہا ہے۔ اب وقت کا تعین کرنا بہت مشکل ہے کہ میں کتنے روز تک بلند دیواروں کی ایک کوٹھری میں دلہن بن کے رہوں گی۔

انیس سو ننانوے میں نواز شریف کا تختہ الٹا گیا تھا۔  اس وقت کے اخباری تراشے میرے سامنے آئے تو مجھے مونا لیزا کی تخلیق کی گئی کہانی یاد آگئی ۔ نواز شریف کی گرفتاری اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلنے  والے مقدمے کی سماعت کئی روز جاری رہنے کے بعد اس وقت کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج رحمت حسین جعفری نے سابق ویزراعظم نواز شریف کو عمر قید سناتے ہوئے جب جیل بھیجا تو جیل انتظامیہ نے اپنی کار کردگی دکھاتے ہوئے انہیں قیدی کا نمبر بھی الاٹ کردیا ۔

اس کے بعد جب ملزمان نے ہائی کورٹ میں اپیل کی اور وہاں مقدمہ چلا تو آواز لگائی جاتی تھی کہ قیدی نمبر فلاں فلاں حاضر ہو۔ آفس سے روزانہ اس مقدمے کی سماعت کے بارے میں تفصیلات طلب کی جاتی تھیں لیکن ایک رات اگلی صبح کی تیاری کرکے سوئے اور آنکھ کھلی تو اچانک پتہ چلا کہ سنگین نوعیت کے الزام میں ملوث ملزمان ملک سے جا چکے ہیں گویا نواز شریف کو تقریباً تاریخ کا حصہ ہی بنادیا گیا۔

وقت گزرتا گیا اور پھر ایک نیا باب شروع ہوا اور نواز شریف ملک کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوگئے جنہیں چند روز قبل احتساب عدالت نے نو مہینے کی عدالتی کارروائی کے بعد آخر کار ان کی بیٹی اور داماد سمیت سزائیں سنا دیں۔  سزا کا اعلان ہوتے ہیں ملک میں سیاسی بھونچال آگیا اور مختلف زاویوں سے بحث و مباحثے شروع ہوئے کہ نواز شریف ملک واپس آئیں گے یا نہیں؟

میاں نواز شریف کی جانب سے باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ بیٹی مریم نواز کے ساتھ ملک واپس آرہے ہیں جن کے استقبال  کیلئے ن لیگ بڑے دعوے کر رہی ہے کہ کارکنان کی بڑی تعداد ایئر پورٹ پہنچے گی۔ دوسری طرف انہیں جہاز سے ہی گرفتار کرنے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں۔ ان کی گرفتاری کے بعد انہیں فوری طور پر اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے گا ۔

اس طرح سابق وزیراعظم محمد نواز شریف جیل کی ہوا اور روٹیاں کھانے کیلئے خود ملک واپس آرہے ہیں جہاں ان کے وکلاء کی جانب سے ایک بار پھر ان کی سزا کیخلاف عدالت سے رجوع کیا جائے گا اور پھر وہی آواز لگے گی کہ قیدی نمبر فلاں فلاں حاضر ہو ۔

گزشتہ بار شاید آواز سے بلائے جانے والے قیدی کو کبھی یہ خیال بھی نہ آیا ہوگا کہ وہ ایک بار پھر سزا یافتہ ہوکر ایک مجرم کی حیثیت سے عدالت میں قیدی نمبر سے بلایا جائے گا۔



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.