جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں

Pakistan Prime Minister Imran Khan

تحریر: کاشف فاروقی

تبدیلی کا نعرہ لئے مسند اقتدار پر براجمان عمران خان اور ان کے حواری تین ماہ گزر جانے کے باوجود سابقہ حکمرانوں اور موجودہ حزب اختلاف کے ارکین کے عیب گنوانے کے سوا کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام ہیں۔

لوٹی ہوئی مبینہ دولت واپس لانے،  پروٹوکول کے خاتمہ، میرٹ کا بول بالا کرنے اور دو نہیں ایک پاکستان کے سہانے خواب پاکستانیوں کو دکھانے والوں کو ڈالر کی قدر میں اضافہ کا ٹی وی سے پتہ چلتا ہے تو وزیر اعظم بن جانے کا خاتون اول یاد دلاتی ہیں مگر پھر بھی بڑبولا پن بلا کا ہے۔

پاک فوج کو اپنی سیاسی منشور کے ساتھ ہونے کا بیان داغ دیتے ہیں تو پھر بعد میں ساتھیوں کو کہنا پڑتا ہےکہ زبان پھسل گئی، ٹی وی انٹرویو میں دعوٰی کرتے ہیں کہ دیگر ممالک سے پاکستانیوں کے اثاثوں سے متعلق معلومات کے تبادلے کا معاہدہ ہوگیا ہے مگر جب فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ معاہدہ تو سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کیا تھا تو منہ سے آواز نہیں نکلتی،  اور مرغیوں اور انڈوں سے معیشت کی بہتری کے بیان نے تو کمال ہی کردیا ہے۔

صرف تین ماہ میں نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ پاک فوج کے ترجمان کو میڈیا سے اپیل کرنا پڑ گئی کہ حکومت کو چھ ماہ دیئے جائیں اور اس دوران مثبت خبریں چلائی جائیں، اس بیان کو بھی لوگوں نے سوشل میڈیا پر آڑے ہاتھوں لیا،  سردی کا موسم ہے لیکن ایک منچلے نے مشورہ دیا کہ اسکردو اور قلات کا درجہ حرارت بھی منفی نہیں مثبت ہی بتایا جائے آخر وزیر اعظم عوام کے لاڈلے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان ناتجربہ کار ہیں لہذا  ان کو حکومت چلانا مشکل ہوگا یہ تو پہلے ہی پتہ تھا لیکن اس بارے میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا مشورہ معقول تھا کہ اگر کچھ نہیں کرسکتے تو زبان بند رکھیں تاکہ عوام میں بےچینی تو نہ پھیلے اور پھر مل جل کر مسائل کا حل تلاش کریں۔ مگر عمران خان تو عمران خان، ان کے ساتھی بھی ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دوڑ میں ایسے لگے ہیں کہ کوئی کچھ سننے سمجھنے کو ہی تیار نہیں، ایسے ہی لوگوں میں صف اول کے کھلاڑی ہیں مراد سعید، جن کو پتہ ہی نہیں کہ عوامی اجتماعات میں لوگوں کےسامنے بھاشن جھاڑنے اور قومی اسمبلی میں اظہار خیال کا فرق کیا ہے۔

انتخابات کے موسم میں عوام سے کئے گئے وعدے تو اکثر سیاست دان بھلا ہی دیتے ہیں مگر اسمبلی کے فلور پر چیخنے چلانے کی بجائے بات میں وزن لانے کیلئے دلائل اور تحمل کا مظاہرہ ضروری ہے، اگر پانچ سال حکومت کرنی ہے تو سب سے پہلے خود کو یقین دلانے کی کوشش کریں کہ آپ حکومت میں آچکے ہیں، تاکہ آپ کو خود اپوزیشن سے حکومت کے کردار میں ڈھلنے میں کچھ آسانی ہوسکے۔

ایک اور درخواست ہے کہ برائے مہربانی اپنے رویے میں برداشت، تحمل اور شائستگی کے عناصر بھی شامل کیجئے تاکہ آپ کو منتشر افراد کے مجموعہ کی بجائے سیاسی جماعت کا کارکن سمجھا جاسکے، اور ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں بولنے کی بجائے کچھ کرکے دکھائیں کیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ "جو بادل گرجتے ہیں، وہ برستے نہیں"۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.