بلور خاندان ہی نشانے پر کیوں؟

Bilours on target in Khyber Pakhunkhwa?


جو رات قبر میں ہے وہ آ کر ہی رہے گی، جب تک زندگی کی سانسیں ہیں بے گناہ عوام کے دکھ  بانٹتا رہوں گا۔ شہید بشیر احمد بلور کا فلسفہ، سوچ اور عزم بیٹا ہارون بلور لے کر آگے بڑھا اور شہادت کے رتبے پر فائز ہوگیا۔ اب بلور خاندان کی تیسری نسل بھی  باپ دادا کی روایات پر عمل پیرا ہونے کیلئے پرعزم ہے۔

دادا اور والد کی شہادت کے بعد ہارون بلور کے بیٹے دانیال بلور نے بھی عوامی خدمت کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف میدان عمل میں آنے کا دوٹوک اعلان کردیا۔ پے در پے شہادتوں کے بعد سوال اٹھ گیا کہ پشاور میں بلور خاندان ہی دہشت گردوں کو کیوں کھٹکنے لگا۔ کیا وجہ ہے کہ شرپسند انتخابات کے دوران یا قریب بلور خاندان سے وابستہ امیدوار کو نشانے پر لے لیتے ہیں۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب پھولوں کا شہر پشاور روز دھماکوں سے گونج رہا تھا۔  شہر کے محلے خون  سے رنگنے کے ساتھ فضاء بارود کی بو سے بھری ہوئی تھی۔ گلیوں میں اٹھے جنازوں پر آہ  و بکا  اور نوحہ کناں ورثاء نہ صرف زمین  کا سینہ چیر رہے تھے بلکہ آسمان کا دل بھی پھٹ رہاتھا۔

جنازوں پر دہشت گرد حملے کے بعد اہلیان پشاور مزید جنازے قبروں میں اتارنے کی تیاری کرتے ۔ شہر کا شہر مقتل گاہ بنا تھا۔ نہ جانے کس گلی میں کس کی زندگی کی شام ہوجائے ہر شہری چہرے پر خوف سجائے بےیقینی کی زندگی گزار رہا  تھا۔

ایسے میں بشیر احمد بلور آگے بڑھے اور قوم نے ان کو ایک نئے روپ میں دیکھا۔ شہر میں کوئی دھماکا ہوتا اگلے چند لمحوں میں شہید بشیر احمد بلور موقعہ پر پہنچ جاتے ۔ مقصد سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں بلکہ قوم کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ تھا۔ حوصلہ بڑھانا اور دہشت گردوں کو پیغام  دینا تھا۔ ایک دوبار نہیں بشیر احمد بلور نے کئی بار کہا دہشت گردوں کو ہر بار یہ پیغام دوں گا کہ ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے وہ دہشت گردی کے خلاف اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے۔

اس عزم کے اظہار کے بعد بشیر احمد بلور پر تین قاتلانہ حملے ہوئے،جن میں وہ  محفوظ رہے۔ البتہ بائیس دسمبر دوہزار بارہ کی شام دہشت گرد نڈر سیاست دان کے جسم سے سانسوں کا رشتہ توڑنے میں کامیاب ہوگئے۔ انتخابی مہم کے بعد بشیر احمد بلور قصہ خوانی کی پشت پر واقع ڈھکی نعلبندی میں سیاسی تقریب  سے گھر لوٹ رہے تھے کہ  خود کش بمبار نےحملہ کرکے جان لے لی۔

باپ کی شہادت کے بعد بیٹے ہارون بلور نے والد کا مشن جاری رکھنے کا بیڑہ اٹھایا۔ دہشت گردی کے واقعات کی کھل کر نہ صرف مذمت کی بلکہ  شرپسندوں کو للکارتے بھی رہے ۔ بلور خاندان کا کہنا ہے کہ  بڑے پیمانے پر مثبت کام انجام دینے کیلئے چھوٹے چھوٹے گروپس بنانے پڑتے ہیں۔  اسی لئے باپ کی طرح بیٹا بھی ملکی ترقی کیلئے قوم پرستی کو زیادہ  اہم سمجھتا تھا۔

گزشتہ شب تک بشیر احمد بلور کے فرزند ہارون بلور اپنے والد کے مشن کو جاری رکھنے کیلئے کوشاں تھے  کہ کارنر میٹنگ میں ایک بار بھر پانچ سال  پرانے واقعہ کا ایکشن ری پلے ہوا ۔ وہی انداز  وہی طریقہ کار بس فرق اتنا  کہ اُس وقت باپ دہشت گردوں کا ہدف تھا اور اب بیٹا ہارون بلور تھا۔ خودکش بمبار نے ہارون بلور سمیت اکیس افراد کی جان لے لی۔

بلور خاندان کا یہ ہی وہ جذبہ ہے، عزم ہے، جس کی مشعل باپ کی بعد بیٹے اور اب پوتے نے تھام  لی ہے اور دہشتگردوں نے عوامی نیشنل پارٹی کو نہیں بلور خاندان کو صوبے میں بڑی رکاوٹ سمجھ لیا ہے۔  


بشیر احمد بلور اور پھر ان کے بیٹے ہارون بلور کی عظیم قربانی کبھی بھلائی نہیں جا سکے گی ان کی یادیں ہمیشہ دلوں میں رہیں گی اور نئی نسل اپنے نظریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بلاشبہ ان کی شہادت پر فخر کرتی رہے گی۔



اس تحریر کے مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.