دودا ۔ بلوچی فلموں میں انقلاب

 

Doda is screening in Pakistan

تحریر :امجد بلیدی

اکتوبر 2018 کی بات ہے جب کراچی  آرٹس کونسل میں زراب کی اسکریننگ اور دودا کی میوزک لانچنگ کی تقریب میں شرکت کی تھی۔

چار سال طویل انتظار کے بعد بالآخروہ دن بھی آن پہنچا جب کراچی کی مصروف شاہراہ ایم اے جناح روڈ پرفلم دودا کا بل بورڈ آویزاں ہوا  سندھ اور پنجاب کے بس  اڈوں کے سامنے کیپری سینما پر لگا یہ پوسٹر خود کسی انقلابی قدم سے کم نہیں۔

دودا کے لغوی معنی تو میں نہیں جانتا لیکن یہ قدیم بلوچی ناموں میں معتبر نام کا درجہ ضرور رکھتا ہے۔ بڑے بوڑھو‍ ں سے سنا ہے دودا ایک جنگجو تھا جس نے ہر محاذ پر اپنی بلوچ روایات اور ثقافت کا مان رکھا۔

         ۔ بلوچی فلموں کی میوزک لانچنگ و اسکریننگ

فلم دودا کی بات کی جائے تو یہ ہمارے دوست عادل بزنجو اور ان کی ٹیم نوساچ فلمز کا کارنامہ ہے جس میں سب سے اہم کردار معروف شاعر عمران ثاقب اور سیاسی و سماجی شخصیت حبیب حسن نے انجام دیا ہے۔

دودا ایک ایموشنل ڈرامہ مووی ہے جس کی کہانی ایک نوجوان کے گرد گھومتی ہے جو باکسنگ میں ورلڈ چیمپئن بننا چاہتا ہے

دودا دراصل  لیاری کا ایک ایسا نوجوان ہے جس نے بڑا خواب دیکھنے کی گستاخی کی اور اس خواب کو پورا کرنے کیلئے صحیح غلط کی پہچان ہی بھول گیا جس کی سزا اسے ایسی ملی کہ اپنے ساتھ سب کو ڈبوگیا۔

اس  مووی میں بھائی سے بہن کے پرخلوص رشتے کو بھی بڑی خوبصورتی سے دکھایا گیاہے جو اصل بلوچ معاشرے کی عکاس ہے  کہ بہنیں اپنے بھائیوں پر جان نچھاور کرتی ہیں فلم میں بی بی کا کردار خراج تحسین کی مستحق ہے۔

فلم دودا میں صابر کا کردار سب سے متاثر کن ہے جو قرض اتارنے کیلئے شپ بریکنگ یارڈ میں دن محنت کرکے اور رات شراب پی کر اندر کی آگ بجھا رہا ہے۔

نشے میں دھت صابر جب ڈرامائی انداز میں اپنی زندگی کی کہانی بیان کرتا ہے تو دیکھنے والوں کی آنکھوں میں سمندر امڈ آتا ہے۔

فلم میں دودا کے والد بھی نشے کی لت میں مبتلا نظر آتے ہیں جبکہ دودا کی باکسنگ ٹریننگ کرنے والے کوچ استاد نورا ہی دودا کوبیٹے کی طرح چاہتے ہیں۔

فلم کو اس بار بلوچی ٹچ سے زیادہ رومانوی ٹچ بھی دیا گیا جس میں دودا ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار نظر آیا اور اس سے شادی کے چکر میں رشتے کیلئے دودا جب ان کے گھر پہنچتا ہے تو اس سین کو دیکھ کر پورا سینما ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتا ہے۔

مووی میں مختصر سی کامیڈی نے اسے چارچاند لگادیے ہیں جس کی شروعات موالی کا کردار نبھانے والے ہمارے دوست اختر دانش کےسین سے ہوتی ہے۔

فلم میں ولن کے کردار میں جعفر اور استاد صادق کی بھی کیا ہی بات ہے خاص کر ہمارے ہردلعزیز عین رے گمنام کی عین رے گمنام کے بارے میں بتائیں تو وہ ایک ایسا ہیرا ہے جو شاید صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ عین رے گمنام نےاستاد صادق کے روپ میں ولن کے کردار کے ساتھ پوراکا پورا انصاف کیا ہے۔

فلم کی اصل بات تو کرنا میں بھول ہی گیا کہ اس کی موسیقی اور شاعری بھی بڑی شاندار اور مسحور کن ہے گانوں کی شاعری زیادہ عمران ثاقب کی ہے جب کہ میوزک کا تڑکا ہمارے نوجوان مزمل موزی نے دیا ہے۔

گانوں میں استاد نورل اور باسط بلوچ کی آواز نے مزہ دوبالا کردیا ہے جس کے بعد بندہ یہ کہہ سکتا ہے کہ پیسے وصول ہوگئے۔

میرے بتانے سے زیادہ اس مووی کو دیکھنے کے بعد ہی آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ ناصرف بلوچی فلمی صنعت میں ایک انقلاب ہے بلکہ سینیما گھروں کی رونقیں بحال کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔

نوساچ کی ٹیم کو اتنا ہی کہوں گا کہ  ۔کٹے ما کٹے ما  نہیں ۔یعنی تم جیتو گے نہیں بلکہ دودا کو لاکر تم جیت چکے ہو اور تم ہمیشہ اسی طرح کروڑوں دل جیتتے رہو۔



کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.