سی ٹی ڈی کی ریڈ بک ۔ ایڈیشن نیا معلومات پرانی

 

CTD Red Book 2021 9th Edition

تحریر: عبید شاہ

پاکستان کے صوبہ سندھ میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے مختلف جرائم میں انتہائی مطلوب افراد کے کوائف پر مشتمل ’ریڈ بک‘ کا نواں ایڈیشن چار سال بعد جاری کیا ہے۔

ریڈ بک ایک سرکاری دستاویز ہے جس میں ان افراد کے نام شامل کیئے جاتے ہیں جو بے امنی، قتل وغارت گری اور دہشت گردی جیسے واقعات میں براہ راست یا بطور سہولت کار قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب ہوں سی ٹی ڈی کی ایک خاص کمیٹی انٹیلیجنس رپورٹس کی بنیاد پر  ریڈ بک میں نام شامل کرتی ہے۔

 ریڈ بک کی اشاعت کا مقصد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران و اہلکاروں کو انتہائی مطلوب ملزمان کی بنیادی معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ شاہراہوں چیک پوسٹ موٹر وے پولیس  ریلوے پولیس ان مطلوب ملزمان سے انجان نہ رہے۔ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد حامد کے مطابق نویں ایڈیشن میں 93 دہشتگردوں کے کوائف کا اضافہ کیا گیا ہے۔

ریڈ بک کے نویں ایڈیشن میں داعش12،تحریک طالبان پاکستان 23، انصار العشریہ4، لشکر چھنگوی 13،جنداللہ پاکستان2،سپاہ محمد پاکستان24،سندھ ریزوولیشن آرمی4، بلوچ لبریشن آرمی5  ،امن کمیٹی اور لیاری گینگ کے 3،3دہشت گردوں کے نام شامل کئے گئے ہیں جبکہ پہلی بار ایک خاتون ڈاکٹر سعدیہ کانام بھی ریڈ بک کا حصہ بنا ہے۔ ڈاکٹر سعدیہ کا نام سانحہ صفورہ پر منظر عام پر آیا تھا ان پر القاعدہ برصغیر کے دہشت گردوں کی معاونت کا الزام رہا ہے۔

انٹر نیٹ کی آمد سے قبل اس ریڈ بک کا حصول ایک مشکل مرحلہ تھا افسران بالا سے اچھے تعلق رکھنے والےصحافی کو ہی اس بک کی زیارت نصیب ہوتی تھی ورنہ اس کا شمار confidential دستاویزات میں ہی ہوتا رہا ہے  لیکن انٹر نیٹ نے اس کا حصول آسان بنادیا ہے۔

 ریڈ بک سندھ پولیس کی ویب سائیٹ پر موجود ہے اور اسکے نئے ایڈیشن کی خبر  بریکنگ کی صورت میڈیا پر چھائی بھی رہی کیونکہ جہاں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے معلومات کے حصول کو سہل بنا دیا ہے وہی کاپی پیسٹ کلچر بھی خوب پروان چڑھ رہا ہے بنا تحقیق سنی سنائی بات کو کاپی پیسٹ کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔

خبر کا تجزیہ اور اسکی باریکی سے گرفت کاپی پیسٹ بریکنگ میں کھو کر رہ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ چار سال بعد آنے والی ریڈ بک کے نقائص کارگردگی کے ٹکرز میں کھو گئے اور یہ بات عوام تک نہ پہنچ سکی کےفہرست میں شامل زیادہ تر دہشتگرد نہ صرف  کئی سالوں سے گرفت میں نہیں آسکے بلکہ نئے ایڈیشن میں مطلوب دہشت گردوں کے کوائف تا حال نامکمل ہیں سالہا سال سے کئی دہشت گردوں کے خاکے جو کہ ملزم کی مشابہت کا دس فیصد بھی نہیں ہوتے شامل ہیں جبکہ بعض کی تصاویر اور بنیادی معلومات بھی قلیل ہیں، ریڈ بک میں شامل کئی دہشت گرد اب نئے نیٹ ورکس میں کام کررہے ہیں، جن کا ریڈ بک کے تازہ ایڈیشن میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ۔ ریڈ بک میں لیاری گینگ کے استاد تاجو اور تحریک جعفریہ  کے محسن مہدی عرف گڈو کی غلط تصاویر شائع کی گئیں  ریڈ بک میں محسن مہدی کو انتہائی متحرک بتایا گیا ہے ملزم کے شناختی کارڈ نمبر سے سی ٹی ڈی لا علم ہے   جبکہ محسن مہدی ،وقار نقوی ایڈوکیٹ مرحوم کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کرتا رہا ہے  اور اس وقت لندن میں مقیم ہے اور نئے نیٹ ورک فعال کرنے میں کوشاں ہے

بی ایل اے کے سربراہ  اور چائنیز قونصلیٹ حملے کے نامزد ملزم حیر بیار مری کا شناختی کارڈ نمبر سی ٹی ڈی ریکارڈ میں نہیں حیر بیار مری 1996 میں بلوچستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور بلوچستان کے وزیر  تعلیم رہے ہیں ایسے میں انکے قومی شناختی کارڈ سے لاعلم ہونا سی ٹی ڈی کے ہوم ورک کی قلعی کھولنے کے لیئے کافی ہے۔ سال 2000 میں حیر بیار مری کے والد نواب خیر بخش مری کو بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو حیر بیار پاکستان سے برطانیہ روانہ ہوگئے اور وہاں سیاسی پناہ کی درخواست کی جس پر حکومت پاکستان کا مئوقف تھا کہ حیر بیار بلوچستان لبریشن آرمی کے سربراہ ہیں جسے برطانیہ اور امریکہ نے دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے ان پر لندن میں مقدمہ چلایا گیا 2009 میں برطانوی عدالت نے انہیں دہشت گردی کے الزامات سے بری کرتے ہوئے 2011 میں سیاسی پناہ دے دی ان تمام تر قانونی جنگ کے باوجود سی ٹی ڈی کا انکے قومی شناختی کارڈ پاسپورٹ نمبر سے لاعلم رہنا انکی کارگردگی کا عکاس ہے۔

ریڈ بک میں ایم کیو ایم لندن کا کوئی دہشت گرد شامل نہیں جبکہ سی ٹی ڈی شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور بے امنی کے حوالے سے متعدد بار ایم کیو ایم لندن کو مورود الزام ٹھرا چکی ۔سی ٹی ڈی کی پریس کانفرنسز میں  گرفتار ہونے والا ہر دوسرے ٹارگٹ کلر کا تعلق ایم کیو ایم لندن سے بتایا جاتا ہے۔ سی ٹی ڈی نے کہکشاں حیدر اور سلیم بیلجیئم پر ایم کیو ایم لندن کا ٹارگٹ کلنگ گینگ چلانے کا نہ صرف الزام عائد کیا بلکہ سلیم بیلجیم کی گرفتاری کے لیئے ایف آئی اے کی توسط سے انٹر پول کو خط بھی ارسال کر چکی ہے۔

  دوسری جانب کہکشاں حیدر پر علماء حضرات کے قتل کا  ٹارگٹ کلرز کو ٹاسک دینے اور  معاوضہ ادا کرنے  کے الزامات  سی ٹی ڈی اپنی پریس کانفرنسز میں کرچکی ہے ان تمام باتوں کے باوجود ایم۔کیو ایم لندن  کی کہکشاں حیدر ریڈ بک میں جگہ نہ بناسکی جبکہ ریڈ بک میں شامل القاعدہ بر صغیر کی ڈاکٹر سعدیہ شاید اس لیئے کامیاب رہیں کہ انکے شوہر عمر کاٹھیو القاعدہ اور بھانجا عبد اللہ یوسف داعش سے وابستہ ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ عمر کاٹھیو اور عبد اللہ یوسف ریڈ بک میں شامل نہیں لیکن ان افراد سے رشتے اور مبینہ طور پر معاونت کے الزام میں ڈاکٹر سعدیہ ریڈ بک میں شامل ہیں۔

ریڈ بک میں بی ایل اے  اور لیاری گینگ کے متعدد دہشت گردوں کے کوائف نامکمل ہیں  بی ایل اے کے مطلوب دہشت گرد کیپٹن رحمان عرف استاد کے کوائف میں سے سی ٹی ڈی انکے قومی شناختی کارڈ سے ناواقف ہے جبکہ مطلوب دہشت گرد پاک آرمی کا بھگوڑا ہے۔ سی ٹی ڈی کراچی کے رہائشی دہشت گردوں کے شناختی کارڈ نمبر  تک سے لاعلم ہےنئے ایڈیشن میں داؤد عرف حاجی عرف پولیس والا  کو داعش پاکستان کا سربراہ ظاہر کیا گیا ہےجبکہ داؤد عرف حاجی ایک گروپ کا کمانڈر  اور سندھ پولیس کا برطرف اہلکار ہے ۔

پاکستان میں داعشی نیٹ ورک کا سربراہ  انجینئر عبداللہ الباکستانی ہے جو کہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ریڈ بک میں کراچی کے بہت سے ہائی پروفائل کیسز کے حوالے سے بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔  ریڈ بک کے کئی دہشت گرد گرفتاری کے بعد  ضمانت یا رہائی حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں لیکن افسران کی مدح سرائی کرنے والے عناصر ان نکات کو کاپی پیسٹ نہیں کرتے۔



اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک ٹی وی نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدانِ صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.