عقل کل !


IG Sindh Kaleem Imam organizing workshop for crime reporters

تحریر: شاہد انجم

لڑکپن میں اپنی جائے پیدائش چھوڑ کر چلا جانے والے کو یادنہیں تھا کہ اس کا بچپن کہاں گزرا تھا، وہاں کا موسم کیسا تھا، وہاں کے لوگ کتنا پیار کرنے والے تھے۔ اسے تو شاید محلے داری اور دوستوں کی بیٹھک بھی اب یاد نہیں تھی۔

لڑکپن اور پھر جوانی کے ادوار گزارنے کے بعد نصیب اور مقدر پھر اسے وہیں واپس لے آئے جہاں آنے کی شاید اب اس نے خواہش ظاہر کی تھی۔

امام دین دور دراز اور غیرممالک میں اتنا وقت گزار چکا تھا کہ وہ اب ان رسم و رواج کو شاید بھول چکا تھا یا پھر وہ وہاں وہ جان بوجھ کر انہیں دوبارہ اپنانا  ہی نہیں چاہتا تھا ۔ وہ اپنے دوستوں اور دیگر احباب سے اب اپنی طرح کی زندگی گزارنے کے مشورے دیتا رہتا تھا، شاید وہ تو اب بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ جب وہ اس دھرتی سے دور ہوا تو اس کے بعد یہاں رہنے والوں نے کس طرح کی مصیبتیں جھیلیں کس طرح لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو سے کھیلا گیا اور کس طرح لوگوں نے اپنی جان بچائی؟

شاید وہ نہیں جانتا تھا کہ ان کے اب نئے رہن سہن کو بھی شاید وہ یہاں کے لوگ پسند نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اس کی ایسی ہی نصیحت تو شاید سننا بھی نہیں چاہتے تھے، امام دین جس طرح اپنی جوانی کی رونقیں گزار چکا تھا وہ اب بھی اس طرح رہنا چاہتا تھا اور خود عقل کل بھی کہلانا پسند کرتا تھا، شاید اس کی نظر میں تمام لوگ احمق اور بیوقوف تھے  اور وہ شاید خود بھی یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ ان سب کو اپنے رنگ میں ڈھال لوں گا اور تمام لوگ اب میری ہی اطاعت کریں گے۔

 اپنے سے بڑوں کو پرانی سوچ کا مالک کہنے اور اپنے سے کم عمر کو بیوقوف سمجھنے لگا تھا  اور کسی ہم عمر نے ان سے کسی بات پر مشورہ کرنے کی کوشش کی تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتا تھا ۔

امام دین کی اس کہانی کو پڑھنے کے بعد مجھے موجودہ آئی جی سندھ  کلیم امام یاد آگئے جو گزشتہ برس ایک بہت بڑے لینڈ مافیا کی سفارش پہ تعینات ہوئے مگر پھر  چند ماہ کے بعد وہ غیر جانبدار کہلانے لگے۔ موجودہ حکومت سندھ سے بھی ان کے اختلافات بہت شدت اختیار کر گئے بلکہ وفاق کو بھی حکومت سندھ کی طرف سے ان کی تبدیلی کے لئے سفارش کی گئی جوکہ ابھی تک بے سود ثابت ہوئی، اپنے ماتحتوں کے خلاف ان کی طرف سے کرپشن،بدعنوانیوں کے ڈھیروں الزامات لگائے گئے اور جواب میں ماتحت افسران نے بھی ان کے خلاف کمر کس لی بلکہ چند روز قبل ایک صحافتی تنظیم کے ایک پروگرام میں آئی جی سندھ کی طرف سے صحافیوں کو رپورٹنگ سکھانے کی ذمہ داری بھی انھوں نے اٹھانے کی بات کی تو میرے ذہن میں چند سوالات ابھرنے لگے۔

آئی جی صاحب نے تقریب کے دوران صحافیوں کو رپورٹنگ سکھانے کی بات کی۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے انسان زندگی سیکھنے کے عمل سے گزارتا ہے مگر شاید آئی جی صاحب یہ بات بھول گئے جس صوبے میں اس وقت پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں و ہاں پر گزشتہ کئی دہائیوں تک انسانوں کو کس طرح سرعام قتل کیا گیا،کس طرح شہر کی کئی شاہراہوں پر انسانی خون بہتا رہا اور درندے کس طرح سے انسانی گوشت نوچتے رہے۔

اس وقت یہی صحافی تھے جو کہ  ان درندوں کے ظلم و ستم کے سامنے جھکے نہیں بلکہ حق اور سچ کی آواز کو عوام تک پہنچات رہے اور شاید اس وقت آپ ملک کے پرامن علاقوں میں آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔

دوسرا سوال کہ آپ صحافیوں کو رپورٹنگ سکھانے کی بجائے اگرآپ  پولیس کےشعبہ تحقیقات کو تفتیش کی تربیت دیتے تو شاید  گرفتار ہونے والے کئی جرائم پیشہ اپنے انجام تک پہنچ جاتے، اور اگر آپ کے پاس اتنا وقت ہے تو اپنے بیوٹی پالر جیسے کمرے سے نکل کر کچھ وقت شہر کی شاہراہوں پر گزاریں تاکہ عوام کو احساس ہو کہ سیکیورٹی ادارے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

آئی جی صاحب، شاید آپ یہ نہیں جانتے یہاں شہری ایک گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے کے لیے تھانوں کے اس لئے چکر لگاتے ہیں کہ وہاں موجود پولیس اہلکار ان سے منہ مانگی رشوت طلب کر تے ہیں  لہذا آئی جی صاحب دوسروں کو سکھانے سے اچھا ہے کہ آپ اپنے ادارے کے لیے کچھ کر لیں اس لئے کہ آپ کی عزت اور وقار سب اس ادارے سے وابستہ ہے، ذرا سوچنے ذرا سوچئے




اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.