بچوں سے زیادتی کا ذمہ دار - کمزور خاندانی نظام

Feeble family system responsible for child abuse

تحریر: نوید کمال

ماں باپ میں علیحدگی ہوئی
باپ نے ماں پر جبر کیا
دس سالہ بیٹی کو اپنے پاس رکھ لیا
وہ رحیم یار خان میں ہی باپ کے پاس رہنے لگی ماں گھر سے کچھ ہی دور رہتی تھی
لیکن فاصلہ بہت بڑا تھا ماں سے کم کم مل پاتی
اسی طرح تین سال گزر گئے
ایک دن ماں کی بہت یاد آئی
وہ گھر سے خود ہی نکل کھڑی ہوئی
گلی سے نکلی کچھ سمجھ نہیں آیا
راستہ بھول گئی ۔سنا تھا رکشے  والے کو پیسے دو تو منزل تک پہنچاتا ہے۔ 
مٹھی میں دبے دسبیس کے دو مڑے تڑے نوٹایک رکشہ والے کی طرف بڑھائے
مجھے میری امی کے گھر پہنچادو ۔
رکشہ والے نے بٹھاکر ایک گھنٹے تک گھمایا
پھر اپنے ٹھکانے پر لے گیا جہاں ایک ماہ تک پانچ افراد  معصوم کو نشہ آور انجیکشن لگا کر زیادتی کرتے رہے۔ ایک ماہ میں انیس دن رمضان کے بھی شامل ہیں۔

باپ پاگلوں کی طرح ڈھونڈتا رہا۔
پولیس کے پاس گیا ۔پولیس روایتی جملے ادا  کرتی رہی ۔ مقدمہ درج نہ ہوا
ایک ماہ بعد باپ کو ملی تو قریب المرگ تھی اسپتال پہنچایا زندگی کی بازی ہار گئی
بظاہر اس کا قاتل رکشہ ڈرائیور ہے لیکن میری نظر میں اسے کمزور خاندانی نظام نے قتل کیا۔

کیا یہ بچی اپنی ماں اور باپ دونوں کےپاس رہتی تو اتنی سادگی سے کسی رکشے والے کے ہتھے چڑھ سکتی تھی؟  طلاق یا خلع سے دو لوگ علیحدہ نہیں ہوتے خاندان ٹوٹتا ہے۔

شادیاں اس کے بعد طلاقیں،خلع کے کیسز ایک المیہ ہیں۔ گزشتہ تین سال سے طلاق اور خلع کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ صرف کراچی کی بات کریں تو سال 2018 میں کراچی کے پانچ اضلاع کی عدالتوں میں خلع، طلاق، بچوں کی حوالگی سمیت ساڑھے دس ہزار سے زائد کیسز داخل ہوئے اورلگ بھگ 2800 سے زائد  نمٹائے گئے ۔

سب سے زیادہ ضلع شرقی کی عدالتوں میں 3043 مقدمات داخل کئے گئے۔غربی میں 2150 ، جنوبی کی عدالتوں میں 1648 اور ضلع وسطی کی عدالتوں میں 2100 مقدمات دائر کیے گئے۔

سال 2017 میں یہ تعداد ایک ہزار کم تھی۔ یعنی 2017 میں کراچی کی عدالتوں میں 9500 فیملی کیسز فائل ہوئے۔ 2016 میں دائر ان کیسوں کی تعداد 9000 تھی۔

لاہور کی صورت حال کراچی سے بھی ابتر ہے۔ لاہور میں گزرے سال طلاق اور خلع کے بیس ہزار سے زائد مقدمات دائر ہوئے جن میں زیادہ تر مقدمات باہمی پسند کی شادی کے بعد خواتین کی جانب سے دائر کیئے گئے ۔ فیملی کورٹس میں چاکلیٹس اور کھلونے ہاتھوں میں تھامے آنکھوں میں اداسی لیئے بچوں سے ملنے آتے ہیں۔ بچوں کی حوالگی پر رسہ کشی جاری رہتی ہے۔

ماں کی مامتا یا باپ کی شفقت سے محروم بچوں کی رسی کسی دن ایسے ہی کسی بھیڑیئے کے ہاتھوں ٹوٹتی ہے،  اور ان میں سے اکثر موت کی وادی میں پہنچ جاتے ہیں ۔ ماں کی انا  رہتی ہے باپ کی ضد بھی، لیکن معصوم فرشتے نہیں رہتے ۔ یہ واپس نہیں آتے۔



اس تحریر کے مصنف نوید کمال ایک ٹی وی نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی تیزی سے میدانِ صحافت میں مقام بنا رہے ہیں۔ ان سے ای میل  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

2 تبصرے:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.