پولیس والوں سے ڈر لگتا ہے صاحب

صنوبر شیخ


ایک دور تھا کراچی میں ٹارگٹ کلنگ عروج پرتھی گھر سے نکلنے والے کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ گھر واپس آ بھی سکے گا یا نہیں۔  پھر وقت بدلا،آہستہ آہستہ کراچی میں امن لوٹ آیا ٹارگٹ کلنگ تقریباً ختم ہی ہوگئی لیکن لوگوں کا خوف ابھی ختم نہیں ہوا ۔اب اس خوف کی جگہ ٹارگٹ کلرز کے بجائے پولیس نے لے لی ہے۔لکھتے ہوئے بڑا عجیب لگ رہا ہے کہ لیکن اب واقعی شہر کے محافظوں  سے ہی ڈر لگنے لگا ہےچوک چوراہوں پر یہ کالی وردی والے اہلکار کھڑے تو ہماری حفاظت کے نام پر ہوتے ہیں لیکن ان کے ہاتھ کئی معصوموں کے خون سے رنگے ہیں ۔

 پہلے لوگ ناکوں پر پولیس سے اس لیے کتراتے تھے کہ بلاوجہ وقت برباد کرتے ہیں، چیکنگ کے نام پر ڈبل سواری کے نام پر، نہ جانے کتنے اور ناموں پر تنگ کر کے جیب گرم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اب لوگ کتراتے ہی نہیں خوف بھی کھاتے ہیں کیوں کہ پولیس کی بندوق سے نکلنے والی گولی  ڈاکو یا عام شہری کا فرق نہیں کرپاتی  بس لگ جاتی ہے۔

چند روز پہلے صفورہ چورنگی پر پولیس کے رابن ہُڈ ڈاکوؤں کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے  رش کی جگہ پر گولی چلادی جو رکشے میں والد کی گود میں بیٹھے ڈیڑھ  سال کے  احسن   کا سینہ چیرتی ہوئی نکل گئی ۔ بچے کے دادا نے تو یہاں تک الزام لگایا کہ کوئی مقابلہ نہیں پولیس والوں کی آپس کی لڑائی تھی۔ پولیس کی گولی نے بچے کی سانسیں چھین لیں اور واقعے پر آئی جی کلیم امام صاحب  نے معافی سے کام چلا لیا ۔سندھ پولیس کے سربراہ نے ہی معاملے سے ہاتھ اٹھالیے تو اس  کی ٹیم کا کیا حال ہوگا؟ اور وزیر اعلیٰ سندھ کے تو کیا ہی کہنے  اسمبلی اجلاس میں ہمیشہ کی طرح جذباتی تقریر جھاڑ کر داد سمیٹ لی۔ ان سب چیزوں سے والدین کا جگر گوشہ واپس نہیں آنے والا ۔

احسن کا واقعہ کراچی کا پہلا واقعہ نہیں۔ دو سال  میں کراچی پولیس نے مقابلوں کی تاریخ رقم کی ہے۔ اپریل کے آغاز  میں کراچی  کا سجاد بھی پولیس مقابلے میں پولیس کی اندھی گولی  کا شکار ہوا۔ بائیس فروری کوانڈہ موڑ پر میڈیکل کی طالبہ نمرہ یونیورسٹی سے گھر جارہی تھی کہ پولیس مقابلے کی بھینٹ چڑھ گئی ۔ گزشتہ سال تیرہ اگست کو والدین کیساتھ آزادی کا جشن منانےنکلی دس سال کی امل پولیس والوں کی گولیوں کا نشانہ بنی۔ بیس جنوری دوہزار اٹھارہ کو پولیس نے شارع فیصل پر مقصود کو جان سے مار دیا۔ ڈیفنس  میں پولیس کی گولیوں کا شکار انتظار کے اہلخانہ اب تک انصاف کا انتظار کر رہے ہیں اور نقیب اللہ محسود۔۔ نقیب اللہ کیس کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟اس کیس نے کراچی پولیس کے وحشیوں کا چہرہ بےنقاب کیا ۔راؤ انوار نے کس طرح نقیب کو ماورائے عدالت اغوا کیا اور پھر جعلی مقابلے میں مار دیا ۔قاتل آج بھی پروٹوکول میں گھومتے ہیں عدالت آنے پر پیٹی  بند بھائی ان کے ہاتھ چومتے نظر آتے ہیں،وہ تو سلام ہےسوشل میڈیا پر مہم چلانے والوں کو  جنہوں نے  نقیب اللہ محسود پر سے دہشتگردی کا دھبہ ہٹوایا بتایا کہ وہ زندگی سے پیار کرنے والالڑکا تھا ۔

ایسا  کب تک چلے گا ؟حکومت سندھ کہتی ہے سب سے پہلے عوام کی جان کا تحفظ ہے جس میں وہ بھی بری طرح ناکام ہوئی؟صوبے کے  وزیراعلی نے تو مان بھی لیا کہ وہ شہریوں کا تحفظ نہ کرسکے کیونکہ  ان تمام کیسوں میں سے کسی ایک کو انصاف نہ دلا سکے۔شہریوں کی جان ومال کا تحفظ کرنے والے ہی جب جان کے دشمن بن جائیں تو عوام کسی کے پاس فریاد لے کر جائیں؟ایسا کب تک چلے گا ؟کیا شہری اسی طرح  اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟۔ کیا اسی طرح کراچی پولیس میں تعینات غیر تربیت یافتہ عملہ عوام کو لاشوں کے تحفے دیتا رہے گا؟ اور آخر میں وزیر اعظم صاحب سے التجا ۔۔ جناب اپنی ٹیم میں تبدیلیوں سے فراغت مل گئی ہو تو ذرا ادھر بھی نظر کیجیے۔کیا پولیس کے محکمے میں تبدیلیوں کی ضرورت نہیں ؟لوگ  مر رہے ہیں ۔۔مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے ؟


صنوبر شیخ نوجوان اور باصلاحیت لکھاری ہیں، ایک نجی نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ صنوبرشیخ سےٹوئٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ 
 مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.