شہہ بالا کی تبدیلی

Prime Minister's trusted Finance Minister Asad Umar removed in cabinet reshuffle

تحریر : شاہد انجم

بارات والی گاڑی کی سیٹوں پر ہر کوئی اجلے کپڑے پہنے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مارتے تالیاں بجائے جارہا تھا۔ تیز آواز میں اسپیکر پر گانے بھی چل رہے تھے ہر کوئی اپنی مرضی کا گانا سننے کے لئے جیب سے کیسٹ نکال کر آپریٹر کو دے رہا تھا تاکہ وہ اپنے پسند کے گانے پر جھومے اور موج مستی کرے مگر بس میں سوار کچھ باراتی شور شرابے سے نالاں بھی تھے۔

وہ آپس میں یہ چہ مگویاں بھی کررہے تھے کہ کیا یہ لوگ نشے کی حالت میں ہیں۔ بس کی پہلی نشت پر دلہا سوار تھا اور شہہ بالا جس کی عمر کچھ زیادہ ہی تھی دلہا کو اس گاؤں کا راستہ بتا رہا تھا جہاں اس کی بارات جانی تھی مگر شہہ بالا اپنی عقل مندی سے زیادہ بے وقوفی کررہا تھا جس پر ساتھ بیٹھے لوگ تنقید بھی کررہے تھے کہ اچانک گاڑی ایسے راستے پر چل پڑی کہ جہاں راستے میں دلدل تھی۔

ناہموار راستہ دیکھ کر دلہا کو غصہ آرہاتھا مگر وہ بار بار اس غصے کو پی رہا تھا، بارات لیٹ ہوتی جارہی تھی مگر شہ بالا اب بھی اپنی ضد پر قائم تھا کہ اچانک دلہا کے کان میں کچھ لوگوں نے یہ پیغام دیا کہ تم اس کی باتوں میں نہیں آؤ ورنہ تمھیں بارات واپس ہی لے جانا پڑے گی۔

دلہا نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا اور شہہ بالا کو اپنی گاڑی سے اتارتے ہوئے ایک راہ گیر کو اپنا شہ بالا بناتے ہوئے بولا کہ تم مجھے منزل مقصود پر لے کر چلو۔ دلہا  کیلئے یہ فیصلہ کرنا تھا تو مشکل اس لئے کہ جس کو شہہ بالا کی سیٹ سے اتارا تھا وہ اس کا بہت قریبی تھا مگر وہ کیا کرتا کیونکہ اسے اپنی آئندہ کی زندگی کی بہت فکر تھی۔ باراتیوں سے بھری گاڑی آہستہ آہستہ پھر سے  منزل کی جانب روانہ ہوگئی۔

شہہ بالے کی یہ کہانی سن کر مجھے گزشتہ روز وفاقی کابینہ میں کی گئی تبدیلی یاد آگئی جس میں وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف اپنے کئی وزراء کو  تبدیل کیا بلکہ وزیرخزانہ اسد عمر کو اپنی کابینہ سے ہی فارغ کردیا جبکہ اسد عمر وزیراعظم عمران خان کے بہت قریبی اور بااعتماد ساتھی تصور کیے جاتے تھے۔

حکومت میں آنے سے قبل اور حکومت بننے کے بعد تک عمران خان اسد عمر کے نام کی مالا جپتے تھے مگر اس وقت بہت افسوس ہوا جب اپنی آخری پریس کانفرنس کرنے پہنچے تو بلکل اکیلے تھے اور ان کے چہرے پر سب عیاں تھا بلکہ چند روز قبل وزیر خزانہ کی تبدیلی کی خبر دینے والے صحافیوں اور چینل مالکان کو اس وقت کے وزیراطلاعات فواد چوہدری نے پیمرا سے باقاعدہ نوٹس دلوائے کہ ان خبروں میں کوئی صداقت ہی نہیں جبکہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی بے خبری کا عالم یہ تھا کہ شاید یہ خود ان کو بھی اطلاع نہیں تھی کہ وہ بھی اب وزیراطلاعات نہیں رہیں گے۔

ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ اقتدار میں آنے والا ان کو سب سے پہلے تبدیل کرتا ہے جس نے حصول اقتدار میں سب سے زیادہ مدد کی ہو۔ لہذا ہم سب کو ایسے حالات سے سبق سیکھنا ہوگا کہ ہم اپنی چادر سے پاؤں باہر نہ نکالیں۔



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.