پرائی ٹیم کا کپتان




بس میں سوار دو آدمیوں سے کسی نے کہا کہ آپ سے پسینے کی بو آرہی ہے کپڑے بدل دیں، دونوں نے ایک دوسرے سے بدل ڈالے۔ ہماری وفاقی کابینہ کے ارکان کی ناقص کارکردگی پر خان صاحب نے بھی یہی حل نکالا کہ ان کی وزارتیں تبدیل کردیں۔ جمعرات کو اسد عمر کی رخصتی کےبعد وزیراعظم نے کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کرتے ہوئے دو وزراء کو رخصت کیا جبکہ کئی کے قلمدان تبدیل کردیے گئے۔ اندر کی خبر ہے کہ ان میں سے کچھ تبدیلیاں تو ناقص کارکردگی کی وجہ سے کی گئیں جبکہ دو سے تین وزارتوں میں کرپشن کی وجہ سے ان وزراء کے قلمدان تبدیل کیے گئے

خان صاحب نے اسد عمر کے جانے کے بعد معیشت کی ڈولتی کشتی کو پار لگانے کے لیے عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ لگادیا، یہ وہی عبدالحفیظ شیخ ہیں جو  مشرف دور میں سن دوہزار سے دوہزار دو تک سندھ کے وزیرخزانہ تھے۔ دوہزار تین سے دو ہزار چھ تک ق لیگ کی وفاقی  کابینہ میں وزیر نجکاری و سرمایہ کاری رہے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں دوہزار دس سے دوہزار تیرہ تک وزیر خزانہ رہے۔ عمران خان معیشت کی تباہی کی ذمہ داری ن لیگ کے ساتھ پیپلزپارٹی پر بھی ڈالتے ہیں تو یقینی طور پر عبد الحفیظ شیخ کا بھی ان میں اہم کردار رہا ہے۔

   کابینہ میں دوسری بڑی تبدیلی فواد چوہدری کی صورت میں سامنے آئی ہے، موصوف کپتان کی ناک کے بال سے کم نہیں تھے، پرویزمشرف کے رفیق تھے، زرداری کا کامیابی سےدفاع کرتے رہے اور خان صاحب کےبھی ہر اول دستے کےسپاہی ہیں۔ وزارت اطلاعات تو  خوب چلارہے تھے لیکن کہاجاتاہے کہ کرپشن کے علاوہ نعیم الحق سے سرد جنگ کی وجہ سے وہ وزارت اطلاعات کے قلمدان سے محروم کردیے گئے اور انہیں سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت دے دی گئی۔ وزارت اطلاعات کے لیے فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو معاون خصوصی مقرر کیا گیا ہے۔ یہ بھاری بھرکم خاتون دوہزار دو میں ق لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی پہنچیں، دوہزار آٹھ میں  پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا  اور پھر وزیراطلاعات و نشریات بنیں۔

سب سے قابل ذکر اور اہم تعیناتی ہوئی ہے  بریگیڈئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کی ، انہیں داخلہ کا وفاقی وزیر بنادیا گیا، یہ وہی اعجاز شاہ ہیں جن کا ذکر بےنظیربھٹو مرحومہ نے اپنے خط کیا تھا کہ  اگر انہیں کچھ ہوگیا  تو ایف آئی آر میں اعجاز شاہ کو نامزد کیاجائے، موصوف اس وقت  آئی بی کے سربراہ تھے۔  اعجاز شاہ  دوہزار دو کے انتخابات سے پہلے پنجاب میں سیاسی جوڑ توڑ اور ق لیگ بنانےوالوں میں شامل تھے۔

اعجاز شاہ کی جگہ پارلیمانی امور کی وزارت اعظم خان سواتی کے حصے میں آئی، جنہیں سپریم کورٹ کے حکم پر سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت سے ہٹایا گیا تھا۔  اعظم خان سواتی جے یو آئی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔تھانوں اور چیک پوسٹوں پر چھاپے مارنے والے وزیرمملکت شہریار آفریدی کو ریاستی اور سرحدی امور کا وزیرمملکت بنادیا گیا۔

  غلام سرور خان سے پیٹرولیم کی وزارت لیکر ایوی ایشن کا قلمدان دے دیا گیا، واقفان حال کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان غلام سرور خان کو کابینہ سے ہٹانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے دھمکی دی کہ اگر وزارت نہ ملی تو وہ حکومت چھوڑدیں گے۔ غلام سرور خان  انیس سو اٹھاسی سے پیپلز پارٹی میں تھے، دوہزار چار میں مشرف دور میں ق لیگ کی کابینہ میں وزیر بنے۔ دوہزار آٹھ کا الیکشن ق لیگ کے ٹکٹ پر لڑا،  دوہزار تیرہ میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔  عمران خان نے بائیس سالہ جدوجہد کے ساتھی عامر محمود کیانی سے وزارت صحت چھین لی اور ظفراللہ مرزا کو معاون خصوصی لیا۔ امور کشمیر اور گلگت بلتستان علی احمد گنڈاپور سے بھی قلمدان واپس لے لیا گیا۔

کپتان نے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کردی، اب پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے حفیظ شیخ معیشت سنبھالیں گے،  پرویزمشرف کے قابل اعتماد ساتھی اعجاز شاہ وزیرداخلہ  بن گئے ، ق لیگ سے پیپلزپارٹی اور پھر پی پی  سےہجرت کرنے والی فردوس عاشق اعوان وزارت اطلاعات میں معاون ہوں گی۔ پیپلزپارٹی اور ق لیگ سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی میں آنے والے غلام سرور خان پیٹرولیم میں شاندار کارکردگی دکھانے کے بعد ای ایویشن ٹھیک کریں گے۔  فضل الرحمان کی زیرنگرانی سیاست شروع کرنے والے اعظم سواتی پارلیمانی امور کے نگہبان ہوں گے۔  گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے فواد چوہدری اطلاعات میں مثالی کارکردگی کے بعد سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت میں ترقی کا سفر جاری رکھیں گے۔ پیٹرولیم اور صحت کے معاملات ٹیکنوکریٹس دیکھیں گے۔ وزیردفاع اور وزیرقانون کا ذکر  اس لیے مناسب نہیں سمجھا کہ فوکس صرف حالیہ تبدیلی ہے۔ 

کپتان صاحب! آپ بڑے فخر سے  اپنی بائیس سالہ جدوجہد کا ذکر کرتے ہیں  ، واقعی یہ فخر کی بات ہے لیکن شرمندگی کا مقام تو یہ ہے کہ بائیس سالہ جدوجہد میں آپ ٹیم نہ بناسکے، ایک اسد عمر ہی تھے جن پر آپ کو فخر تھا، انہوں نے کوشش تو خوب کی لیکن بوقت ضرورت وہ بھی کھوٹاسکہ ثابت ہوئے۔  اب آپ نے اہم وزارتیں انہیں سونپ دیں جو کبھی مشرف اور زرداری کے ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے ۔آپ نے بائیس سال تک کچھ نہیں کیا، قوم نے آپ کو نجات دھندہ سمجھ لیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قوم سراب  کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ آپ کہتے تھے کہ لیڈر ایماندار،دیانت دار  اور قابل ہونا چاہیے نیچے کے لوگ خود بخود ٹھیک ہوں گے تو ہم کیا سمجھیں کہ لیڈر  بے ایمان اور نا اہل ہیں  یا آپ غلط تھے؟






 خیراللہ عزیز سینئر صحافی ہیں۔ ایک پشتو زبان کے ٹی وی چینل لانچ کرچکے ہیں۔ اس وقت وہ ایک اردو نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تحاریر دیگر ویب سائٹس اور جرائد میں بھی شایع ہوتی ہیں۔خیراللہ عزیز سے ٹوئیٹر  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

2 تبصرے:

  1. بس میں سوار دو آدمیوں سے کسی نے کہا کہ آپ سے پسینے کی بو آرہی ہے کپڑے بدل دیں، دونوں نے ایک دوسرے سے بدل ڈالے۔ ہماری وفاقی کابینہ کے ارکان کی ناقص کارکردگی پر خان صاحب نے بھی یہی حل نکالا کہ ان کی وزارتیں تبدیل کردیں۔ جمعرات کو اسد عمر کی رخصتی کےبعد وزیراعظم نے کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کرتے ہوئے دو وزراء کو رخصت کیا جبکہ کئی کے قلمدان تبدیل کردیے گئے۔ اندر کی خبر ہے کہ ان میں سے کچھ تبدیلیاں تو ناقص کارکردگی کی وجہ سے کی گئیں جبکہ دو سے تین وزارتوں میں کرپشن کی وجہ سے ان وزراء کے قلمدان تبدیل کیے گئے
    dunya news

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.