بلوچستان میں مظلوموں اور کمزوروں کی مؤثر آواز


کشادہ پیشانی، روشن نورانی چہرہ ، سر پر روایتی پگڑی پہنے حاجی عبدالرؤف سے جو بھی ملے ان کا مرید بن جاتا ہے، قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان کے پسماندہ علاقے سیگئی میں رہائش پذیر حاجی عبدالرؤف علاقے کی معروف ترین اور ہردلعزیز شخصیت ہیں۔  پشین میں مختصر قیام کے دوران اپنے میزبان ملک سعداللہ جان ترین سے حاجی عبدالرؤف کے بارے میں سنا تو وقت نہ ہونے کے باوجود ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا  ہوا،   اور پھر ہم دوست   ملک صاحب کے ہمراہ پشین سے سیگئی پہنچے۔

حاجی عبدالرؤف خان ترین کے حجرے میں گروپ فوٹو

  قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان کا ذکر سن کر ہمارے ذہنوں میں ایک ترقی یافتہ اور خوشحال علاقے کا خاکہ بنا جہاں ضرویات زندگی کی تمام سہولتیں موجود ہوں گی کیونکہ یہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی صاحب کا آبائی علاقہ ہے، گزشتہ دور حکومت میں ان کے بھائی  محمد خان اچکزئی صاحب گورنر بلوچستان اور  خاندان کے دیگر افراد وزارت اور اسمبلی رکنیت کے مزے لیتے  رہے لیکن وہاں پہنچ کر انتہائی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا  کیونکہ تحصیل گلستان بھی بلوچستان کے بیشتر علاقوں کی طرح پسماندہ تحصیل ہے جہاں کالج  اور یونیورسٹی تو دور کی بات بڑا اسپتال بھی نہیں ، گیس بالکل نہیں جبکہ بجلی چوبیس گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے  کے لیے آتی ہے۔  خیر بات کہیں اور نکل گئی ہم دوپہر سے ذرا پہلے حاجی عبدالرؤف ترین صاحب کے ڈیرے پر پہنچے  حاجی صاحب کو اطلاع ملی تو دوڑے  دوڑے پہنچے  اور  بے تکلفی سے بغلگیر ہوئے۔  دوران گفتگو  ہمیں  ذرا بھی  احساس نہ ہونے دیا کہ یہ ہماری پہلی ملاقات ہے۔

 حاجی صاحب پشتونوں کے  ترین قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں بالخصوص پشتونخوا میپ سے مایوس ہونے کے بعد چند سال پہلے متحدہ ترین قومی موؤمنٹ کے نام سے اپنی تنظیم بنالی۔ جس کا مقصد  علاقے کی ترقی،مظلوم طبقے کی نمائندگی  اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے قبضہ مافیا کےخلاف لڑنا ہے۔  حاجی صاحب خلوص، ملنساری اور سادہ طبیعت کی وجہ سے علاقے میں تو مقبول عام تھے ہی لیکن ان کی تنظیم نے مختصرعرصے میں بلوچستان کے تمام مظلوموں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان کے حامیوں میں  صرف  ترین نہیں بلکہ پشتونوں کے علاوہ دیگر اقوام کے پسے ہوئے لوگ بھی ان کو سپورٹ کرتے ہیں،یہیں وجہ ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں  پشین اور قلعہ عبداللہ سے ان کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوچکے ہیں جبکہ پشتونوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی پشتونخوا میپ کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

  جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو اتنی حمایت حاصل ہے تو دیگر پارٹیوں کی حمایت کے بجائے اپنے امیدوار کیوں میدان میں نہیں اتارے تو انہوں نے حقیت پسندانہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ان کی پارٹی اس پوزیشن میں نہیں کہ ایک بھی نشست لے سکے البتہ انہوں نے ایسے امیدواروں کی حمایت کی جنہوں نے علاقے کی پسماندگی دور کرنے کے وعدے کیے اگر دو برسوں میں خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلا تو ان کے پاس آپشن کھلے ہیں۔

 انہوں نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے پشتونوں نے محمود خان اچکزئی صاحب اور ان کے خاندان کو اقتدار تک پہنچایا لیکن بدلے میں عوام کو تو کچھ نہیں ملا البتہ اچکزئی صاحب کے خاندان نے خوب ترقی کی لیکن اب بلوچستان کے عوام باشعور ہوچکے ہیں اور صرف لسانیت یا قومیت کے نام پر انہیں مزید بے وقوف نہیں بنایاجاسکتا  بلکہ اب سوشل میڈیا کا دور ہے اور لوگوں کی آنکھیں کھل چکی ہیں۔

علاقے کا اہم ذریعہ آمدن زراعت

 ان کا کہنا تھا کہ قلعہ عبداللہ اور پشین سمیت آس پاس کے اضلاع کی معیشت کا  انحصار زراعت پر ہے اور  زرعی زمینوں کے لیے ٹیوب ویل لازمی ہے لیکن ان علاقوں کو چوبیس گھنٹے میں محض دو ر گھنٹے بجلی میسر ہے جس سے یہاں کی زراعت تباہی سے دوچار ہے،  محمود خان اچکزئی نے کبھی اس مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ عوامی مسائل پشتونخوا میپ کا کبھی ایجنڈا ہی نہیں رہے اس پارٹی کی تمام تر سیاست لسانیت اور افغانستان کے گرد گھومتی ہے ، کبھی کوئی سائل اچکزئی صاحب کے پاس اپنا مسئلہ  لیکر جاتا ہے تو اچکزئی صاحب فرماتے ہیں کہ سڑک،پانی اور گیس سے  پشتونستان  زیادہ اہم ہے۔  گلستان کے ہزاروں کی آبادی گیس سے محروم ہے لیکن محمود خان اچکزئی نے خاندان کے بارہ گھروں کے لیے پائپ لائن بچھادی ہے  اس لیے بلوچستان کے عوام نے اس بار اس پارٹی کو مسترد کردیا۔ 

محمود خان اچکزئی کے گھروں تک گیس پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ

 حاجی عبدالرؤف نے بتایا کہ ان  کی مقبولیت سے خائف مخالفین نے انہیں ناکام بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا ، ان کے گھر  پر سیکیورٹی فورسز کے ذریعے چھاپے مارے گئے انہیں ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی اس کے باوجود جب وہ ڈٹے رہے تو  ان  پر  قاتلانہ حملے بھی کیے گئے لیکن مظلوموں کی دعاؤں کی بدولت وہ  دو باروقاتلانہ حملوں میں محفوظ رہے۔

حاجی عبدالرؤف ترین صاحب کو بلوچستان کی نئی حکومت سے کوئی خاص امیدیں نہیں، انہیں عمران خان کی وفاقی حکومت سے  بہت توقعات وابستہ تھیں لیکن  خان صاحب کی اب تک کی کارکردگی سے مایوس  ہیں۔  انہوں نے ملک بھر بالخصوص کراچی میں انسداد تجاوزات مہم پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس آپریشن سے کراچی میں بلوچستان کے پشتونوں سے کاروبار چھین لیاگیا جس سے نہ صرف ہزاروں خاندان   متاثر ہوگئے ہیں، بلکہ ملکی معیشت کو بھی نقصان اٹھانا  پڑا حکومت کو چاہیئے تھا کہ پہلے متبادل کا انتظام کرتی اس کے بعد آپریشن  شروع کیا جاتا موجودہ صورتحال سے ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

 حاجی صاحب کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت  متحدہ ترین  قومی موؤمنٹ بلدیاتی انتخابات کی تیاری کررہی ہے اور آئندہ بلدیاتی انتخابات میں وہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ ساتھ  اپنے امیدوار وں کو بھی آزمائے گی۔ وہ بلوچستان کے حقوق کی جنگ لڑنے نکلے ہیں اور مظلوم عوام کو حقوق دلوا کر رہیں گے۔

عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار حاجی عبدالرؤف  ترین خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سہل زندگی چھوڑ کر  کانٹوں کا راستہ چنا۔  حاجی صاحب کی تنظیم کی سرگرمیاں صرف قلعہ عبداللہ یا بلوچستان تک محدود نہیں بلکہ وہ کراچی اور لاہور میں بلوچستان کے رہائشیوں کے مسائل کے لیے ہمہ وقت حاضر رہتے  ہیں۔  حاجی صاحب کا ڈیرہ سائلین کے لیے چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے  جبکہ دوپہر اور رات کو روزانہ سو سے زائد افراد کا کھانا تیار ہوتا ہے ، حاجی صاحب کے دسترخوان کی لوگ مثالیں دیتے ہیں۔ اس دسترخوان پر ہمیں بھی کھانا کھانے کا شرف حاصل ہوا اور خوشگوار یادیں لیے ہم حاجی عبدالرؤف ترین صاحب سے رخصت ہوئے۔ 


1 تبصرہ:

  1. کشادہ پیشانی، روشن نورانی چہرہ ، سر پر روایتی پگڑی پہنے حاجی عبدالرؤف سے جو بھی ملے ان کا مرید بن جاتا ہے، قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان کے پسماندہ علاقے سیگئی میں رہائش پذیر حاجی عبدالرؤف علاقے کی معروف ترین اور ہردلعزیز شخصیت ہیں۔ پشین میں مختصر قیام کے دوران اپنے میزبان ملک سعداللہ جان ترین سے حاجی عبدالرؤف کے بارے میں سنا تو وقت نہ ہونے کے باوجود ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا، اور پھر ہم دوست ملک صاحب کے ہمراہ پشین سے سیگئی پہنچے۔
    balochistan

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.