سوال تو اٹھے گا

Asia Bibi released: Some questions arise

تحریر : ابوحماد

توہین رسالت کیس میں آسیہ مسیح کو بری کرنے کا فیصلہ غلط ہے یا صحیح؟ اس پر ہم رائے نہیں دےسکتے کیونکہ معزز جج صاحبان نے آئین و قانون کےمطابق فیصلہ دیا ہوگا اور بقول ہمارے وزیراعظم، پاکستان کا آئین قرآن و سنت کے عین مطابق ہے۔ اس کے علاوہ  فیصلہ دینے والے معزز جج صاحبان بھی روز محشر اللہ کو جواب دہ ہیں۔

ہم شکر بجالاتے ہیں کہ  عدالت میں آسیہ مسیح پر جرم ثابت نہیں ہوا  اور نبی مہربان ﷺ کی شان میں کوئی گستاخی نہیں ہوئی۔ عدالتی فیصلے کے بعد ملک بھر میں احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کو بھی ہم غلط سمجھتے ہیں۔ 

ہمیں نہیں معلوم کہ آسیہ مسیح توہین رسالت کی مرتکب ہوئی ہے یا نہیں، گواہی دینے والی خواتین سے واقعی اس کا جھگڑا ہوا تھا یا یہ کہانی بعد میں گھڑلی گئی  ہے لیکن ملک کی اعلیٰ عدالت کے اس فیصلے کے بعد ہمارے ذہنوں  میں کچھ سوالات نے سر اٹھایا ہے اور ہماری نالائقی ہے کہ بہت سوچنے کے بعد بھی ہم جواب تلاش نہ کرسکے۔

 آسیہ مسیح  کے خلاف توہین رسالت کیس میں سب سے پہلے سزائے موت کا فیصلہ ٹرائل کورٹ نے دوہزار دس میں سنایا تھا۔ یقیناً یہ فیصلہ پاکستانی آئین اور قانون کے مطابق سنایا گیا ہوگا۔ فیصلے کے خلاف آسیہ مسیح نے  لاہور کی عدالت عالیہ میں اپیل  دائر کی۔ 

ہائیکورٹ نے بھی  ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا لیکن اس سارے عمل میں چار سال لگے۔ عدالت عالیہ کے معزز جج صاحبان  نے بھی آئین پاکستان کے عین مطابق سزائے موت کا  فیصلہ برقرار رکھا ہوگا جب لاہور ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا  تو  پھر سزا پر عملدرآمد کیوں نہیں کرایا؟

اس لیے کہ  آسیہ مسیح نے ہائیکورٹ کے فیصلے کےخلاف ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن حیرت کی بات ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی اس کیس کا فیصلہ کرنے میں چار سال کا طویل عرصہ صرف کیا۔ ہم یہ سوال تو نہیں اٹھاسکتے کہ  ٹرائل کورٹ کی طرف سے سزائے موت کا فیصلہ اگر غلط تھا تو ہائیکورٹ نے کیوں برقرار رکھا۔

 سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں جن  نکات کو بنیاد بناکر ملزمہ کو بے گناہ قرار دیا  ان میں سے ایک نکتہ یہ ہے کہ  آسیہ مسیح اور گواہ خواتین کے درمیان جھگڑا ہوا تھا ایسے میں ان کی گواہی معتبر نہیں۔ مدعی  کے بیانات میں بھی تضاد تھا۔   مقدمہ تاخیر سے درج کیا گیا جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ملزمہ کے خلاف ایک مربوط منصوبہ بندی کی گئی۔  

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ تمام خامیاں ٹرائل کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کو  کیوں نظر نہیں آئیں؟ لیکن اس پر بھی ہم رائے نہیں دے سکتے کیونکہ توہین عدالت پر ہماری طلبی ہوسکتی ہے۔

 سپریم کورٹ نے فیصلہ  آٹھ اکتوبر کو محفوظ کیا تھا لیکن کیا ہم اسے بھی محض اتفاق قرار دے دیں کہ عدالتی فیصلے سے  ایک دن  پہلے یورپی یونین کا وفد  وزیر قانون فروغ نسیم سے ملاقات کرتا ہے۔ ہمارے وزیر انہیں یقین دلاتے ہیں کہ موجودہ حکومت قانونی نظام کی بہتری، گواہان اور عدلیہ کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔ 

 واضح رہے پاکستان کو  یورپی یونین نے جب دوہزار چودہ میں جی ایس پی اسٹیٹس دیا تو اس کو پاکستان میں خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کے ساتھ مشروط کیا گیا تھا۔ جی ایس پی پلس کا مقصد پاکستانی مصنوعات پر ٹیکس لاگو کیے بغیر یورپی منڈیوں تک رسائی دینا تھا۔ تو کیا یورپی وفد یہ یاد لانے آیا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ حاصل نہیں۔ اب سوال تو اٹھتا ہے کہ کیا یورپی یونین  کے وفد کی اہم فیصلے سے پہلے پاکستان آمد  محض اتفاق تھا؟

  صرف یہی نہیں سپریم کورٹ نے توہین رسالت کیس کی ملزمہ کو اکتیس اکتوبر کو بری کردیا یہ وہ تاریخ ہے جو مسلمان کبھی نہیں بھول سکتے اس دن غازی علم دین نے نبی مہربانﷺ کی شان پر  جان قربان کرتے ہوئےموت کو گلے لگایا تھا۔  وہ غازی علم دین جس نے  گستاخ رسولﷺ راج پال کو واصل جہنم کیا تھا۔ وہ غازی علم دین  جس کی سزائے موت کے خلاف اپیل بانی پاکستان محمد علی جناح نے دائر کی تھی اور جس کے جسد خاکی کو مفکر پاکستان علامہ اقبال نے قبر میں اتارا تھا۔  کیا اکتیس اکتوبر کو آسیہ مسیح کو بری کرنے کا فیصلہ محض ایک اتفاق ہے؟

 ہم منصف اعلیٰ سے اس سوال کی جسارت  نہیں کرسکتے  کہ ماتحت عدلیہ میں لاکھوں کیس  زیر التواء ہیں، آپ اسپتالوں کے باورچی خانوں پر چھاپے  کیوں مار رہے ہیں؟ حضور والا  آپ سیاستدانوں کی کرپشن پر تو عدالتیں لگاتے ہیں، ماتحت عدالتوں میں مبینہ کرپشن کا بازار  گرم ہے، چپڑاسی سے لے کر پیش کار تک سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہے ہیں، ایک ٹیبل سے دوسری ٹیبل تک فائل کے ریٹ مقرر ہیں  آپ کو یہ کیوں نظر نہیں آتا؟ لیکن یہ سوال ہم نہیں کرسکتے کیونکہ توہین عدالت کی دفعہ کے تحت ہم اندر ہوسکتے ہیں لیکن یہ سوال ضرور کرسکتے ہیں کہ  اس فیصلے کے لیے اکتیس اکتوبر کو کیوں چنا گیا؟



ابوحماد جید صحافی ہیں اور وہ قلمی نام سے لکھتے ہیں۔ ان سے رابطہ کرنے کے لئے ہمیں ای میل کریں۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.