حکومت نے پہلا وعدہ پورا کردیا


Zulfi Bukhari, advisor to Prime Minister Imran Khan

تحریر: شاہد انجم

چودھری وسیم کے والد چوہدری بقااللہ ایک زمیندار تھے اور انہوں نے اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا جس کے بعد ان کے تینوں بیٹوں نے جاپان میں جاکر پہلے ملازمت اور پھر اپنا کاروبار شروع کیا۔

چودہدری وسیم کا والد ایک خوددار شخص تھا، اس نے بیٹوں کے بیرون ملک جانے کے بعد بھی کھیتی باڑی کے ساتھ کچھ رشتہ داروں سے رقم لے کر فلور مل کی بنیاد رکھی۔ کئی سال بعد جب ان کا بیٹا چوہدری وسیم واپس آیا تو اس نے گھر سے تقریباً دو کلومیٹر دور ایک عمارت دیکھی۔ اسے یقین نہیں آیا کی یہ عمارت اسی فلور مل کی ہے۔

گھرپہنچنے کے بعد اس نے والدہ سے تمام حالات معلوم کئے اور کہا کے آپ لوگوں کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے جس پر ماں نے کہا نہیں بیٹا ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتاؤ۔

تھوڑی دیر کے بعد چوہدری بقااللہ بھی گھر پہنچے انہوں نے بیٹے کو دیکھا بہت خوش ہوئے سینے سے لگایا اور کہا بیٹا کیسی گزر رہی ہے جس پر بیٹے نے کہا کہ ابا جان ہم تو محنت مزدوری کر کے پیٹ پال رہے ہیں۔ باپ نے بیٹے کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا بیٹا یہاں اپنا کام بہت اچھا ہے، کئی ملازمین کی ضرورت بھی ہے اگر تم چاہو تو میں تمہارے کام آ سکتا ہوں۔

چوہدری بقااللہ کو بیٹے نے جواب دیا ابا جان ہم جاپان میں رہتے ہیں وہ لوگ یہاں آ کر کیا کریں گے، ہمارے ملک میں ویسے ہی بہت بے روزگاری ہے لہذا یہاں آکر ملازمت کرنا بہت مشکل کام ہے۔ کچھ دیر بعد دونوں باپ بیٹا فلور مل میں چلے گئے۔ 

چھٹیاں گزارنے کے بعد جب چوہدری وسیم واپس جا رہا تھا تو جہاز میں سوار ہونے سے پہلے چوہدری بقااللہ نے وہی بات دھراتے ہوئے کہا کہ تم جب چاہو خود ہی آ جانا یا کسی بھی دوست کو بھیج دینا اس کی ملازمت کا بندوبست ہوجائے گا۔

یہ بات سن کر چوہدری وسیم سفر پر روانہ ہوا اور راستے میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس کا ایک دوست جس پر جاپان میں مختلف الزامات عائد ہیں اور اسے کوئی ملازمت دینے کے لیے تیار نہیں ہے میں اس کی مدد کر سکتا ہوں۔

وسیم نے وہاں پہنچ کر اپنے دوست سے کہا کہ تم پاکستان جانا چاہتے ہو میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں جس پر دوست نے حامی  بھرتے ہوئے کہا ہاں آپ لوگ جب کہو گے  میں  پاکستان چلا جاؤں گا جس کے چند روز بعد وسیم کا دوست واپس آنے کے لئے تیار ہو گیا اور اس نے فیصل آباد پہنچ کر وسیم کے والد سے رابطہ کیا۔

چوہدری وسیم کے والد نے اسے یہ کہہ کر اپنے پاس ملازم رکھ لیا کہ تم میرے بیٹے کے دوست ہو۔ انہوں نے کہا میں اکثر و بیشتر یہاں نہیں ہوتا تمہاری ذمہ داری ہے کہ تمام لوگوں پر نظر بھی رکھو اور میری معاونت بھی کرو۔ چوہدری بقااللہ کی بات سن کر جاپان سے آنے والے شخص نے حامی بھر لی اور دوسرے ہی روز سے کام کرنے کا کہہ دیا۔

چوہدری وسیم جب جاپان گیا تھا اسی شخص نے اس کا بہت ساتھ دیا تھا، کئی دنوں تک اس کےرہنے اور کھانے پینے کا بندوبست بھی کیا تھا۔ دوسری جانب وسیم کا والد اس بات پر خوش تھا کہ اس نے ایک غیر ملکی کو ملازمت دی۔

چوہدری وسیم کی کہانی سن کر مجھے موجودہ حکومت کی وہ پالیسی یاد آگئی جس میں انہوں نے حکومت میں آنے سے قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں ہماری حکومت آنے کے بعد اتنی ترقی ہوگی کہ غیرملکی پاکستان آکر ملازمت کریں گے۔  شاید انہوں نے اپنے دعوے میں یہ کہیں نہیں کہا تھا کہ جس کو بھی ہم ملازم رکھیں گے اس پر الزام آج جو بھی ہو انہیں نظر انداز کیا جائے گا۔

چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے ایک قریبی دوست زلفی بخاری کو مشیر مقرر کر کے اپنا وہ وعدہ نبھایا جس میں وہ حکومت میں آنے سے قبل کہتے تھے یہاں غیر ملکی کو نوکری ملے گی۔

زلفی بخاری پر نیب میں کئی مقدمات کی تحقیقات چل رہی ہیں جبکہ حکومتی عہدیداروں کے دعوے کہاں گئے جس میں وہ انتخابی مہم کے دوران دوسری سیاسی جماعتوں پر کیچڑ اچھالتے تھے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ لوٹ مار کرنے والوں کو کبھی بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔

اب شاید پی ٹی آئی کی حکومت نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر یوٹرن لیا ہے اور ان تمام لوگوں کو اپنے ساتھ ملا رہی ہے جو کہ کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہیں لہذا موجودہ حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ جو آئینہ وہ دوسروں کو دکھاتے تھے کیا اب اس پر کسی نے سیاہی مل دی ہے یا پھر اسے توڑ ہی دیا ہے۔ ذرا سوچئے۔



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.