شر، شراب اور شرجیل، توبہ توبہ

شر، شراب اور شرجیل، توبہ توبہ


مکھیو ں کی شرارت اور تیلی کی ناسمجھی نے شرجیل میمن کو شرمندہ کرادیا۔ ڈاکٹرزکی ٹیم ڈھونڈتی رہ گئی شراب شرجیل میمن کی رگوں میں دوڑتے خون میں ملی نہ بوتل میں۔ طبی ماہرین نے شرجیل میمن کا جسم اور بوتل دونوں ہی کھنگال ڈالے لیکن الکوحل تو دور کی بات الکوحل کی بدبودار مہک بھی سونگھنے کو نہ ملی۔

ضیاء الدین اسپتال کلفٹن میں زیرعلاج سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن  کے کمرے سے ملی بوتلوں کا مشروب ممنوعہ شربت نہ نکلا۔ پاکستان کے سب سے بڑے نجی اور قابل اعتبار اسپتال کی لیبارٹری نے تصدیق  کردی کہ شرجیل میمن کے خون میں شراب کا کوئی عنصر موجود نہیں جس کے بعد شرجیل میمن نے یقیناً سکھ کا سانس لیا لیکن سابق وزیر کو اس "شر"  کے نتیجے میں  "جیل" منتقل کردیا گیا۔

میڈیکل رپورٹ کے مطابق تو شرجیل میمن شریف نکلے کیونکہ نہ تو شرجیل میمن مدہوش تھے نہ بوتلیں رقص میں تھیں لیکن واقعہ کے بعد کئی سوالات اٹھ گئے۔ شاید کہ شہد کی مکھیوں کو علم ہی نہیں تھا کہ چھتا کہاں بنانا ہے۔ اس لئے انہوں  نے درخت کے بجائے شراب کی بوتل کا انتخاب کیا یا پھر زیتوں کا تیل بیچنے والا تیلی کم  عقل تھا کہ تیل ذخیرہ کرنے کیلئے  شراب کی بوتل استعمال کی۔

میڈیکل  رپورٹ کے بعد سوال  یہ ہے کہ اتنے بڑے اسپتال میں شراب تو نہ پہنچی لیکن بوتلیں کیسے پہنچ گئیں؟ شراب کی بوتلوں کا  استعمال اسپتال میں ہوا یا سچ مچ اسپتال کیلئے  اشیائے ضروریہ خریدنے والوں  کو شراب کی بوتلوں میں تیل اور شہد بیچا گیا؟  میڈیکل رپورٹ نےجہاں  شرجیل میمن  کو بے قصور قراردیا وہیں اسپتال کے عملے، انتظامیہ اور پولیس کا کردار ضرور مشکوک بنادیا۔

چیف جسٹس نے اسپتال کے دورے کے دوران بوتلیں برآمد ہونے پر انہیں چیک کرنے کی ہدایت کی جس پر موقعہ پر موجود صحافیوں نے رپورٹ  کیا کہ عملے نے بوتل سونگھتے ہی ماہرانہ رائے دی، بوتلوں سے شراب کی بو آرہی ہے۔  ساتھ ہی اسپتال انتظامیہ نے شراب کی بو کو ایسے پہچانا جیسے جانی پہچانی ہو۔ اب قصور وار کس کو قرار دیں  معاملہ ایک بار پھر ملین ڈالر کا سوال بن گیا۔

ویسے میرے خیال میں عوام کو اس  کہانی میں یہ سوچ کر صبر کرلینا چاہئے کہ بیمار وزیر کو جیل سے اسپتال منتقلی پر کہا گیا ہوگا، وزیر موصوف کو "دوا، دارو" کی ضرورت ہے۔



اس تحریر کے مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.