تعلیم پر ایک بلوچی ڈاکو مینٹری جو آنکھیں کھول دے

Balochi documentary 'The Color of Stars'

تحریر: امجد بلیدی

کافی عرصے سے کتابوں سے دوری اور غم دوراں نے کچھ ایسے باندھ رکھا تھا کہ کچھ لکھتے ہوئے بھی نہ لکھنے کی سوچ مسلسل قلم سے دورکرنا چاہ رہی تھی۔ اس سوچ کو مات دینے کیلئے بارہا کوشش کی مگر ہر بار ناکامی ہوئی ۔ پھر یوں ہوا کہ الیکشن کے سلسلے میں دفتر میں بنائے گئے الیکشن سیل میں ایک ذمہ داری مل گئی، ذمہ داری کیا کہیں یوں کہہ لیں کہ موقع مل گیا خود کو نہ لکھنے کی سوچ سے دور رکھنے کا۔

اس سیل میں خود کو اس نہ لکھنے کی سوچ سے دور رکھنے کیلئے امیدواروں کی تصویر یں اکٹھی کرنے کا بیڑہ اٹھایا تاکہ مملکت خداداد  میں اسمبلیوں کی کرسیوں تک خود کو بیٹھے دیکھنے والوں کی شکلیں  ذرا ہم بھی تو دیکھ لیں۔ پھر کیا تھا ایک سے ایک تصویر دیکھنے کو ملی یوں کہیے کہ ان شرفا کے اسمبلیوں کے دیدار سے پہلے ہم وہ شخص ہیں جنہوں نے ان کی شکلوں کا دیدارکرلیا  وگرنہ آخری دیدار سے تو رہے۔

ابھی دیدار کا آغاز ہی ہوا تھا کہ بے روزگاری کے دنوں کے دیرینہ  دوست اور بلوچ ہدایت کارطارق مراد کی جانب سے واٹس ایپ پر پیغام ملا کہ پرانا گولیمار میں ایک بلوچی ڈاکو مینٹری’’دی کلر آف دی اسٹارز‘‘ کی اسکریننگ اتوار کی شام پانچ بجے ہے  تمہیں لازمی آنا ہے۔  طارق مراد کی جانب سے لازمی کا لفظ میرے لئے یوں بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ جب بھی طارق لازمی کہتا ہے تو وہ ایونٹ ضرور جاندار کے ساتھ ساتھ شاندار بھی ہوتا ہے۔ خیر طارق مراد سے وعدہ تو نہیں کیا مگرآنے کی کوشش پر آمادگی ظاہر کردی۔

اتوار کی سہ پہر بیوی بچے گولیمار جانے کا ہی سوچ رہے تھے اور مجھے بھی الیکشن سیل میں حاضری لگانی تھی پرانا گولیمار چونکہ میرے دفتر جانے کی گذرگاہ ہی ہے تو اس پر ہم نے بھی حامی بھر لی۔ ہونا کیا تھااہلیہ بے چاری تو گولیمار میں ہی رہ گئی مگر ہمیں ہمارا بڑا سپوت عثمان جان پکڑا گئی  جسے ہم نے بعدازاں دفتر یاترا بھی کروائی دفتر یاترا کی کہانی بڑی لمبی ہے جو پھر کبھی قلمبند کروں گا۔  پہلے چلتے ہیں پرانا گولیمار جہاں ہم نے طارق مراد کی دعوت پرڈاکو مینٹری دیکھنی تھی۔

جناب ہم قریباً پونے پانچ کے قریب وہاں پہنچ ہی گئے جو یونین کونسل آفس کے ساتھ ایک کمیونٹی ہال کی حیثیت بھی رکھتا تھا۔ اسکریننگ کیلئے یہ جگہ کچھ عجیب سی لگی بہر حال کچھ کہے بغیر طویل انتظار کے بعد ہال میں کچھ لڑکے آئے اورطارق مراد ان کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ہال کے اندر لے گئے۔ پراجیکٹر پر بلوچی  گانے چل رہے تھے جن میں سے ایک  فٹبال ورلڈ کپ کیلئے بنایا گیا  گانا بھی شامل تھا ۔

گانے کے اختتام  پر  جب نظریں ہال میں دوڑائیں تو پہلی صف میں بچوں کی اچھی خاصی تعداد اپنی روزمرہ کی شرارتوں کے ساتھ براجمان تھی اور کچھ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس  اور نوجوان ہماری  پچھلی جانب بیٹھے تھے ہال میں حسب معمول کرسیاں نہیں تھیں لہذا ہم سب دریوں پرہی تشریف فرما تھے۔ کچھ دیر بعد ایک نوجوان اسکرین کے سامنے نمودار ہوا اور اس نے  ڈاکو مینٹری  کی باقاعدہ اسکریننگ کا اعلان کرتے ہوئے بولناشروع کردیا۔

’’ آج ہم دو مختلف چیزوں کی اسکریننگ کررہے ہیں ایک علی بخش داد کی جانب سےبنائی گئی ڈاکومینٹری’’دی کلر آف دی اسٹارز‘‘ کی اور دوسری محمدجان دشتی کی شارٹ مووی ’’گلابو ‘‘ کی۔ امید ہے کہ آپ لوگ اسے دیکھنے کے بعد ہمیں اپنی قیمتی رائے سے  ضرور آگاہ کریں گے ۔ ‘‘

نوجوان اعلان کے بعد اپنی نشست پر جاکر بیٹھ گیا اور پھر ڈاکو مینٹری  شروع ہوگئی۔ نگور اکیڈمی بلنگو ر کی پروڈکشن کے ساتھ ہی سورج کی پہلی کرن دکھائی دی  اور پھر مرغے کی اذان کے ساتھ چارپائی پر سویا ایک بچہ انگڑائی لیتے جاگتے دکھایا گیا۔ دیہاتی ماحول بکریوں کو چارہ ڈالتے ایک شخص کے ساتھ ساتھ جب اسکول جانے والے اس بچے کو چار پائی کے قریب گھر سے باہر ناشتہ کرتے دیکھا تو اپنے گاؤں بلیدہ کی یاد آگئی۔  اس سے پہلے کہ میں خیالات کے سمندر میں غوطہ زن ہوتااسکرین پر اسکول کی گھنٹی کی آوازسن کر دوبارہ توجہ ڈاکومینٹری پر ہی مرکوز کردی۔

کچی عمارت کے قریب سینکڑوں بچے جمع ہوئے اور نظم و ضبط کے ساتھ قطار بناکر تلاوت کلام پاک  سننے کے بعد یک زبان ہوکر’’ آمین ‘‘ کہا۔ اس کے بعد اسکرین پر اسکول کے ہیڈ خالد علی تفصیل بتاتے ہوئے نمودارہوئے’’ اسکول میں ہمارا کمرہ ایک ہے اور یہاں بچوں کی تعداد ساڑھے تین سو کے قریب ہے ایک کمرے میں تین سو پچاس بچے کیسےجگہ کرسکتے ہیں ؟؟‘‘

یہ کہانی بلوچستان کے ضلع کیچ میں تربت شہر کے مضافاتی علاقے بل نگور کی تھی ۔جہاں طلبا و طالبات کی تعداد تین سو  سے زائد ہونے کے باوجود بھی اس اسکول کو مڈل تک کا درجہ نہیں دیا گیا تھا۔ اس ڈاکو مینٹری کو علی بخش داد کی جانب سے بڑی عمدگی کے ساتھ فلمایا گیا ہے جس میں  اسکول کے  اورعلاقے کے ماحول  اور بچوں کی تعلیم سے محبت کے جذبے کو خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے۔

اساتذہ کے مطابق یہاں کے کچھ بچےگھر کے کپڑوں میں صبح سویرے سب سے پہلے گھر سے جن کے گھر قریب ہیں آتے ہیں اور پورے اسکول کے میدان اور اس ایک کمرے کی صفائی کے بعد دریاں بچھاکر چلے جاتے ہیں اور پھر جاکر نہادھوکر دوبارہ یونیفارم اور کچھ  بغیر یونیفارم کے حاضر ہوتے ہیں۔

 اس علاقے کی پسماندگی بھی اس ڈاکومینٹری میں نظر آتی ہے جسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں  جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔اسکول اور علاقے میں پانی کی قلت کے باعث طالبعلم دوردراز علاقوں سے گیلن میں پانی لاد کر لاتے ہیں تاکہ علم کے یہ پیاسے بچے  پانی سے اپنے خشک حلق تر کرسکیں۔

ایک استاد کے مطابق اس اسکول میں دو بچے ایسے بھی ہیں جو بولنے اور سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے مگر انہیں پڑھنے لکھنے کا شوق یہاں کھینچ لاتا ہے۔ ان بچوں کو ہم ان کی زبان میں نہ کچھ سمجھا سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ بتاسکتے ہیں لیکن انہیں بس تختی یا کاپی پر اے بی سی لکھ کر دے دیتے ہیں اوریہ اسی پر خوش ہوتے ہیں۔ جی تو ہمارا بھی چاہتا ہے کہ ہم انہیں بھی ایک ایک لفظ سے آشنا کرواسکیں لیکن خصوصی بچوں کی تعلیم کے کیلئے ہمارے پاس کو ئی ذریعہ نہیں جتنی ہم کوشش کرسکتے ہیں کررہے ہیں۔

اسکول پر بنائی گئی یہ  ڈاکو مینٹری بیان کرنے سے زیادہ دیکھنے کے قابل ہے۔ نگور اکیڈمی بلنگور کی پروڈکشن میں بننے والی اس ڈاکو مینٹری میں علی بخش داد کی ہدایت کاری اور عکس بندی اپنی مثال آپ ہے کہ کس طرح انہوں نے بڑی عمدگی اور شائستگی سے اپنے پسماندہ علاقے میں ایک ایسے مسئلے کو اجاگر کیا ہے جس پر آج تک کسی نے نظر یں نہیں دوڑائیں اوریہ ڈاکو مینٹری  ان حکومتوں اور وزرا کے منہ پر زوردار طمانچہ بھی ہے جو حکومتوں میں رہ کر بھی کچھ نہیں کرتے ۔

ڈاکومینٹری کی اسکریننگ  کے موقع پر میں ان تمام دوستوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے مجھے اس ایونٹ کی دعوت دے کر یہ شرف بخشا کہ میں ایک عرصے بعد اسکرین پر کوئی اچھی چیز دیکھ پایاجسے دیکھنے کے بعد میری ہمت اور میرا حوصلہ بھی بڑھا ہے۔ 



اس تحریر کے مصنف امجد بلیدی منجھے ہوئے صحافی ہیں جن کے کئی اخبارات اور جرائد میں کالم اور بلاگ شایع ہوتے ہیں۔ وہ ایک ٹی چینل سے منسلک ہیں جہاں وہ صحافتی ذمہ داریاں سرانجام دے  رہے ہیں۔ 

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

2 تبصرے:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.