انصاف کب ملے گا؟

Families waiting for justice as 258 people died in massive Baldia factory fire six years ago

تحریر: شاہد انجم

ماں آج میں نے دیوار پر بابا کا نام پڑھا ہے۔ بہت سی سرخیاں دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ جیسے یہ قبیلہ کسی ظالم کے ظلم کا شکار ہوا ہے۔ چھ سال قبل شام کے وقت جب بابا کے گھر آنے کا وقت ہوتا تھا تو میں انتظار کرتی تھی کہ وہ گھر آئیں گے، مجھے گود میں لیں گے اور میرے منہ میں ٹافی رکھتے ہوئے یہ ضرور کہیں گے کہ گڑیا تم نے دن بھر کیا کیا تو میں تولتی زبان میں یہ کہتی تھی کہ اسکول سے آنے کے بعد آپ کا انتظار۔

بہت کم مجھے باتیں یاد ہیں مگر اس میں سے چند باتیں مجھے آج بھی کانوں میں گو نجتی ہیں۔ بابا آپ سے کہتے تھے گڑیا کی چوڑیاں اور مہندی ضرور لایا کرو، کیوں کہ یہ پرایا دھن ہے، ایک دن اسے ڈولی میں بٹھانا ہے اس کے دل میں کوئی ارمان نہ رہ جائے۔

ماں میں جب اسکول جاتی ہوں تو برابر والی گلی میں گھر کے باہر بیٹھی بوڑھی خاتون جو دوپہر میں بھی غم کے اندھیروں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے جیسے رات کا آخری پہر ہو اور وہ اپنے لال کو پکارتی ہے بیٹا تم کہاں ہو جلدی گھر آجاؤ تمھارے بغیر گھر کی دہلیز سے اندر جانے کو دل نہیں کرتا۔ اس کی زبان سے نکلے الفاظ سن کر میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے اور میں سوچتی ہوں کہ میرے بابا اور اس بڑھیا کے بیٹے پر ایک ہی وقت میں قیامت ٹوٹی تھی۔

موت کا وقت متعین ہے مگر اس طرح سے ظلم اور سفاکی سے لوگوں کا قتل عام کرنا اور پھر حاکم وقت کی طرف سے اس پر آنکھیں بند رکھنا اس سے بڑی درندگی کیا ہوگی۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو چھ برس گزر گئے۔ متاثرہ فیکٹری میں ظلم کا شکار دو سو اٹھاون افراد میں قوم کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بزرگ اور نوجوان شامل تھے۔ کسی درد رکھنے والے نے دیوار بنا کر ایک ایک اینٹ پر متاثرین کا نام لکھ کر یاد داشت تو قائم کردی مگر فیکٹری کے در و دیوار آج بھی چیخ چیخ کر اس ظلم کے خلاف منصف کو پکار رہے ہیں۔

سانحہ پیش آیا تو اس وقت کے حاکم وقت اور سیاسی پنڈتوں نے اپنی اپنی دکان چمکانے کے لئے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور سانحہ میں ملوث دہشت گردوں کی گرفتاری بلکہ انہیں کڑی سے کڑی سزا کا مطالبہ اور متاثرہ خاندانوں کی مالی معاونت کرنے کے وعدے اور دعوے کیے مگر افسوس صد افسوس جیسے جیسے فیکٹری میں آگ سے بنی خاک اڑتی گئی وہ دعوے داروں کے ذہنوں  پر جمتی گئی۔ اس خاک نے وقت کے ساتھ ساتھ ظالموں کے چہرے  بھی چھپا دیئے۔

سانحہ بلدیہ کا پتہ چلانے کیے لئے کئی تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی گئیں اور ملزمان کی نشان دہی بھی کی گئی لیکن وہ شواہد فائلوں میں ہی دبا دیئے گئے۔ کیا یہ سب سیاسی مصلحت ہے یا پھر ایسے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہوگیا ہے۔ دو سو اٹھاون افراد کے خون سے رنگے ہاتھ آج ایوانوں میں کسی کے اقتدار کو دوام بخش رہے ہیں۔ ان بیٹیوں، ماؤں اور ان کے ننھے بچوں کی چیخیں آپ کو نرم بستر پر کیسے سونے دیتی ہیں؟ کیا قاضی نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان متاثرہ خاندانوں کو انصاف فراہم کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ ذرا سوچیئے



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.