سقراط زہر نہ پیتا تو مرجاتا

سقراط زہر نہ پیتا تو مرجاتا

تحریر: عبید شاہ

یہ 399 قبل مسیح ہے  یونان کی تاریخ کی سب سے بڑی عدالت ایتھنز میں لگائی گئی ہے۔ عدالت میں تل دھرنے تک کی جگہ نہیں۔ لگتا ہے سارا شہر ہی عدالتی کارروائی دیکھنے اُمڈ آیا ہے۔ کٹھہرے میں ایک بزرگ فلسفی دانشور  اور جلیل المرتبت استاد سقراط پر جرح کا آج آخری دن ہے۔ سقراط پر  استغاثہ نےتین بڑے الزامات لگائے ہیں۔

(1) نوجوانوں کو گمراہ کرنا
(2) مقدس دیوتاؤں کا انکار
(3) ایسے خدا کا تصور جسے کسی نے نہیں دیکھا

سقراط اپنی صفائی میں جب بولتا تو اس کا ایک ایک لفظ علم ودانائی کا نشتر ثابت ہوتا جو مجمع کے دل و دماغ میں پیوست ہوجاتا لیکن اہل حکم فیصلہ کر چکے تھے، سقراط کے دلائل سے ان کے دل پگھلنے والے نہ تھے۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں ایک مجسمہ ساز سچے خدا کا تصور پیش کرنے کی پاداش میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں انتقامی کارروائی کا شکار ہورہا تھا۔

سقراط کو عدالتی فیصلے کے بعد زہر کا پیالہ دیا جارہا ہے، خیالی تصور۔ فوٹو وکی پیڈیاسقراط کے خلاف ایک بھٹکے ہوئے نوجوان کو بطور گواہ پیش کیا جاتا ہے جو کہ عدالت میں سقراط پر الزام لگاتا ہے کہ سقراط نے اسے گمراہ کیا۔ سقراط کے دلائل، علم وحکمت اور منطق پر مبنی سحر انگیز گفتگو بالائے طاق رکھتے ہوئے فقط ایک نوجوان کی گواہی پر معزز عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ سقراط کا جرم ثابت ہوگیا۔ عدالت نے عوامی ردعمل کے پیشِ نظر سقراط کے سامنے دو تجاویز رکھیں۔ شہر چھوڑ جائیے یا پھر زہر کا پیالہ پائزن آف ہام کا انتخاب کیجئے۔ عوامی اکثریتی رائے کے برخلاف سقراط نے زہر  کا پیالہ پینا پسند کیا اور انسانی تاریخ میں امر ہوگیا۔

یہ 2018 ہے۔ سوشل میڈیا میں روز کی بنیاد پر عدالت لگتی ہے۔ سقراط کیا چیز ہے لوگ اپنے رب، نبی، نظریات، ضمیر  پر مقدمات چلاتے ہیں۔ دلائل، علم، منطق، فلسفہ، تاریخ سب کو بالائے طاق رکھتے ہیں۔ اپنی عقل و دانش کو کافی سمجھتے ہوئے فیصلہ پہلے سے ہی محفوظ رکھتے ہیں۔ جرح کرتے ہیں، ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں، نیچا  دکھانے کے لیے خواہ مستند ہو یا نہ ہو، لنکس شئیر کرتے ہیں کیونکہ انہیں کسی بھی حال میں سقراط کو زہر پلانا ہوتا ہے۔ اپنی عقل کی بنیاد پر عقل عطا کرنے والے رب کو یہ روز کٹھہرے میں کھڑا کرتے ہیں، جرح کرتے ہیں، الزام لگاتے ہیں اور ثابت بھی کردیتے ہیں کہ رب کا یہ حکم یہ فیصلہ درست نہیں، رب رجوع کرے یا پھر زہر کا جام پی لے۔

ایسے میں بھلا سقراط بیچارے کی کیا بساط۔ سقراط سوشل میڈیا کی عدالت میں دلیل دیتا ہے کہ اے لوگوں تمہیں یہ تو معلوم ہے کہ روئے زمین کے حسین ترین انسان یوسفؑ ہیں لیکن تمہیں یہ نہیں معلوم کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے اکانومسٹ بھی ہیں جن کے ملک فلسطین میں سات سال تک قحط رہا لیکن ان کی اکانامی پالیسی ایسی تھی کہ ایک بھی شخص بھوک سے بلک کر نہیں مرا۔

اے لوگوں تمہیں یہ تو معلوم ہے کہ سلیمانؑ کو چرند پرند کی زبان آتی تھی، جنات ان کا حکم بجا لاتے تھے لیکن تمہیں یہ نہیں معلوم کو وہ روئے زمین کے بہترین ریفارمر تھے جنہوں نے اپنے ملک کی انڈسٹریز اور یمن کی معیشت زراعت کو ملا کر خطے میں تعمیر و ترقی کی بنیاد رکھی تھی۔

اے لوگوں تمہیں کافر اور مرتد  کا فرق معلوم نہیں، حقوق اللہ کا علم نہیں لیکن تمہاری عقل اقلیت کے حقوق میں گُھلے جارہی ہے۔ تمہیں یہ تو معلوم ہے کہ عمرؓ نے نصرانی کو اکائونٹنٹ رکھا لیکن تمہیں یہ نہیں معلوم کہ تمہارا دین پورا ایک معاشی نظام وضع کرتا ہے۔ ایسے میں ایک اکائونٹنٹ سچے رب کی اکانامی پالیسی کو فالو کرنے کا پابند ہے۔

تمہیں مذہبی طبقے کہ جذبات میں انتہا پسندی تو نظر آتی ہے لیکن تمہاری عقل الہامی احکامات کو ضد کی بنیاد پر رد کرتی ہے، وہ انتہا پسندی تمہیں کیوں نظر نہیں آتی؟

سقراط کے ان سب دلائل کے باوجود معترضین کہتے ہیں جوانی میں تو تم بھی مجسمہ ساز تھے، بڑھاپے میں دین ابراہیمی کے نظریات کا پرچار کیوں کر رہے ہو اور اب جذباتیت اور عملیت سے دور علماء کو نظیر بنا کر پیش کرتے ہیں۔ دیکھو تمہاری سوچ سے متفق فرد قتل کی دھمکی دے رہا دیکھو گالی دے رہا ہے، سقراط کہتا ہے۔

حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور سیدِ عالم ؐکے پاس بیٹھا ہوا تھا جب یہ شخص (عبدﷲ بن نواحہ) اور ایک آدمی مسیلمہ (کذاب) کی طرف سے سفارت کار بن کر آئے تو حضور سیدِ عالم خاتم الانبیاء و المرسلینؐ نے فرمایا کیا تم دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اﷲ تعالیٰ کا رسول ہوں۔

انہوں نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ (کذاب) اﷲ کا رسول ہے (معاذ اﷲ ثم معاذا ﷲ۔ نقل کفر کفر ناباشد)۔ حضور خاتم الانبیاء والمرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پہ ایمان رکھتا ہوں اگر میں سفارت کاروں کو قتل کرنے والا ہوتا تو تم دونوں کو قتل کر دیتا۔

امام احمد بن حنبلؒ نے نقل کیا اورنسائی شریف میں روایت ہے حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ نے فرمایا
اس عمل سے سنت جاری ہو گئی کہ سفارت کاروں کو قتل نہ کیا جائے۔ اس میں جھوٹے نبی اور اس کے پیروکاروں سے متعلق واضح حکم بھی دے دیا گیا ہے۔

اسی طرح ایک اور جگہ امام احمد بن حنبلؒ، حضرت سیدنا عبدﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ جب اپنے لشکر کو روانہ فرماتے تو حکم فرماتے غداری نہ کرنا، دھوکا نہ دینا، نعشوں کی بے حرمتی نہ کرنا، بچوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنا۔

اس حدیث مبارکہ سے واضح طور پہ سمجھا جا سکتا ہے کہ حضور سیدِ عالم ﷺ کے دورِ مبارک میں اقلیتوں کے حقوق کا کس قدر خیال رکھا جاتا تھا ۔

ابن قدامہ اور المغنی نے نقل کیا کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا، غیر مسلم شہری جزیہ یعنی ٹیکس اس لیے ادا کرتے ہیں کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے اموال کی طرح محفوظ ہو جائیں۔

اس لیے اقلیت اور مرتدین اور جھوٹے نبی کے پیروکاروں کے لیے الگ الگ حکم ہے۔ ان تمام دلائل کو سننے کے بعد سقراط کے سامنے عدالت دو آپشن رکھتی ہے، سوشل میڈیا بدر ہو جاؤ یا انتہا پسندی، رجعت پسندی اور جاہل ہونے کا زہر پی لو۔

بڑا باریک نکتہ ہے گر سمجھ پاؤ دوستو!
سقراط اگر زہر نہ پیتا تو ۔۔۔ مرجاتا



اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدان صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے  فیس بک  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.