حروف تہجی سے 'ق' باہر نکال پھینکا

حروف تہجی سے 'ق' نکل باہر نکال پھینکا

تحریر: کاشف فاروقی

سرکاری اسکول میں پڑھنے کے باعث اردو گزارے کے قابل رہی البتہ انگریزی صرف پڑھ کر سمجھنے کے لائق تھی۔ میری تعلیم کا آغاز اس وقت ہوا جب سرکاری اسکولوں میں انگریزی چھٹی جماعت سے پڑھائی جاتی تھی لیکن اردو پر پہلی کلاس سے ہی بھرپور توجہ دی جاتی، جب سے تعلیم کا شعبہ نجی تحویل میں گیا انگریزی کیا بہتر ہوتی اردو کا بھی برا حال ہوگیا ہے۔

میں نے صحافت کا آغاز اس دور میں کیا جب ملک میں صرف پرنٹ کا میڈیم تھا اور الیکٹرونک میڈیا کے نام پر صرف پاکستان ٹیلی ویژن کا وجود تھا جس پر اردو میں خالد حمید اور انگریزی میں شائستہ زیدی جیسے نامور نیوز کاسٹر خبریں پڑھا کرتے تھے جنہیں زبان اور بیان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اسی لئے تو پچیس سے تیس سال گزرنے کے باوجود بھی ان کے نام میرے ذہن میں نقش ہیں۔ صحافت کے استادوں نے بھی شروع سے مجھے یہی سبق پڑھایا کہ جب تک زبان میں وسعت پیدا نہیں ہوگی اس وقت تک بیان یا تحریر پراثر ہونا ممکن نہیں۔

ٹی وی میں آیا تو بھی سننے کوملا کہ نیوزکاسٹر کا کام انتہائی مشکل ہوتا ہے زبان و بیان پر مکمل عبور اولین ترجیح اور پھر شکل و صورت دیکھی جاتی ہے البتہ چہرہ فوٹو جینک ہونا چاہیے۔

طویل عرصے تک بی بی سی سے وابسطہ سینئر صحافی کے ساتھ دو سال کام کرنے کا موقع ملا جنہوں نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ بی بی سی پر ایک نامور خاتون صحافی اور اینکر کو صرف اس وجہ سے بی بی سی مقامی ٹی وی پر خبریں پڑھنے نہیں دی گئیں کیونکہ ان کی انگریزی میں کینڈین تلفظ کی جھلک آتی تھی۔ حیرت اس وقت ہوتی تھی کہ بی بی سی سے آئے سینئر صحافی کے دور میں آنے والی ایک سینئر نیو کاسٹر جما جما کے حکیکت (حقیقت)، کانون (قانون) اور کرعہ (قرعہ)  جیسے الفاظ ٹی وی پر بولا کرتی تھیں اور اب صحافت ان کی پہچان ہے۔

کم و بیش تمام پاکستانی نیوز چینلز میں بلاتفریق مرد و ذن کو ملازمت مل جاتی ہے بھلے کسی نیوز کاسٹر کی شکل صورت اچھی ہے یا نہیں لیکن ستم یہ ہے کہ وہ مہربانی کو حق سمجھ کر اپنی کمی بیشی کو پورا کرنے کی بجائے سینئر صحافی بننے کیلئے کوشاں ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرف دور میں بطور نیوز کاسٹر ملازمت کا آغاز کرنے والوں کی اکثریت خود کو سینئر صحافی کہلانا پسند کرتی ہے بغیر سوجھے سمجھے کہ بہت سے لوگ موجود ہیں جو جانتے ہیں کہ ان میں کوئی ڈاکٹر تھا، کوئی اسٹاک بروکر، کوئی میڈیکل ریپ، کوئی ہوٹل کی گیسٹ ریلیشن افسر وغیرہ وغیرہ۔

نیوز چینلز میں زبان کا صحیح استعمال ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہا، وقفہ کی جگہ بریک کا استعمال تو ابتدائی غلطی ہے، اب تو حیرت کی جگہ حیرانگی نے لے لی ہے، گولیوں کی گھن گرج کہ جگہ تڑ تڑاہت لکھا اور پڑھا جاتا ہے، ہلالی کو حلالی پکارتے ہیں، مگر سب سے بڑا ظلم تو یہ ہے کہ ننانوے فیصد نیوز کاسٹرز نے مل کر 'ق' کو حروف تہجی سے باہر نکال پھینکا ہے۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو اپنے نام میں  آنے والے 'ق' کو بھی واضح طور پر نہیں بول سکتے۔

موجودہ چینل میں ایک ہی نام کی دو نیوز کاسٹرز ہیں لہذا ان کی پہچان کیلئے ساتھی ایک کو کتل (قتل) اور دوسری کو کرارداد (قرارداد) کہہ کر پکارتے ہیں کیونکہ دونوں نے مل کر کومی اسمبلی میں اسپیکر کے انتخاب والے روز کومی زبان کے ساتھ جو سلوک کیا اس کے بعد  کصہ ہی تمام ہوجاتا ہے۔

 ایک اور ہیں جنہوں نے گزشتہ برس دہشتگردوں اور رینجرز سے مقابلے سے متعلق خبر دینے پر مجھ سے سوال پوچھا کہ جائے وقوعہ پر کتنے رینجرز اہلکار موجود ہیں؟

چند ماہ پہلے ایک خبر کی ہیڈ لائین ملاخہ کیجئے

" کندیل بلوچ کتل کیس میں انسداد دہشتگردی کی عدلات نے مفتی عبدالکوئی کے ناکابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے"

رونے کا مقام تو یہ ہے کہ یہ سب سینئر صحافیوں کی ناک کے نیچے چل رہا ہے مگر کوئی یہ کوشش نہیں کرتا کہ ان ہی نیوز کاسٹرز کی بھاری بھرکم تنخواہوں سے پانچ ہزار فی کس کاٹ کر ایک قاری صاحب کو بلالے جو روز صبح شام کی شفٹ میں ایک گھنٹہ ان کا تلفظ درست کرائیں۔

پرنٹ میڈیا نے اکہتر سالہ تاریخ میں بہت سارے نامورصحافی پیدا کئے مگر الیکٹرونک میڈیا ٹین ایج تقریباٰ مکمل ہونے کے باوجود ایک بھی ایسا نام پیدا نہیں کرسکا جسے واقعی ٹی وی جرنلزم کی دریافت کہا جاسکے۔ جو ہیں وہ پرنٹ کی مہربانی ہے۔

بہت سے گھس بیٹھئے ہیں جو کبھی جرنلزم کے نام پر خبریں دے کر آگہی سے زیادہ خوف پھیلارہے ہیں اور کوئی سیکورٹی کی حالت مخدوش دکھانے کیلئے بھری اسمبلی میں پستول سمیت گھس جاتا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہ قانون شکنی ہے۔



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔


مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.