ماں کی گود اجڑ گئی

Mother crying as her young son Bilal, 17, killed in crossfire between drug smugglers and police at Gadap

تحریر: شاہد انجم

کفن میں لپٹی لاش کو چھلنی جگر کے ساتھ سڑک پر رکھ کر دہائیاں دینے والی ضعیف العمر خاتون سے یہ کہا جارہا تھا کہ تم لاش کو گھر لے جاؤں تاکہ جن لوگو ں کی یہ گزر گاہ ہے وہ پریشان نہ ہوں۔ کچھ الفاظ ہمدردری کے اور کچھ مبینہ دھمکی آمیز عنصر تھا۔

مجھے نہیں جانا میرا لخت جگر کب اٹھے مجھے ماں کہہ کر پکارے گا۔ تمھیں کیا پتہ ظالموں اولاد کا درد کیا ہوتا ہے اور غربت کی چکی میں کیسے پسا جاتا ہے، اگر تمیں یہ پتہ چل جائے کہ بیٹا کیسے جوان ہوتا ہے اور دل کی امیدیں کس طرح پروان چڑھتی ہیں تو شاید اس طرح کی غفلت، کوتاہی یا لاپرواہی سے قبل تمہاری نظر اور دل کا دھڑکنا بند ہوجائے مگر تم ایسے کیوں سوچو گے اس لیے کہ جس کے گھر کو آگ لگتی ہے کلیجہ بھی اسی کا پھٹتا ہے، جس کی دنیا اجڑتی ہے یہ سب وہ جانے تم کیا جانو۔

آج میری آنکھ جہاں تک یہ دیکھ رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ تمام لوگ میرے بیٹے کے قاتل ہوں۔ ابھی تو وہ مجھے گھر میں کھیلتا ہوا ہی نظر آرہا ہے، میرے بیٹے نے تمھارا کیا بگا ڑا تھا۔ کوئی ایک تو گلہ بتا دو تاکہ میں یہ سوچ کر باقی زندگی کے دن گزار لوں گی کہ شاید میری تربیت میں کہیں کمی رہ گئی تھی جس کی وجہ سے مجھے آج اتنی بڑی سزا ملی اور اگر مجھے جواب نہ ملا تو  میرے صبر سے نکلی آہ کئی گھروں کو اور بستیوں کو جلا  کر راکھ کردے گی۔

میرا اشارہ  ہفتہ کو گڈاپ کے علاقے میں ہوئے واقعہ کی طرف ہے جس میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان کو خلجی گوٹھ میں منشیات فروشی کی اطلاع موصول ہوئی تھی جس پر کارروائی کی گئی اور منشیات فروشوں نے فائرنگ شروع کردی۔

فائرنگ کا سلسلہ کچھ دیر تک جاری رہا جس کے نتیجے میں ایک ماں کی گود اجڑی اور سترہ سالہ بلال جاں بحق ہوگیا۔ بلال کی موت کے بعد پولیس نے واپسی کا راستہ لیا اور یہ کہہ کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرنے لگی کہ بلال بدنام زمانہ منشیات فروش جنت گل کے حامیوں کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ کا نشانہ بنا۔

لاش کو بعد میں پوسٹ مارٹم کیلئے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بلال کو جسم کے مختلف حصوں میں دو گولیاں لگیں جو کہ بڑے ہتھیار کی تھیں۔ گولیوں کے خول فرانزک لباریٹری بھجوا دیے گئے ہیں۔ اب پوسٹ مارٹم اور فرانزک لباریٹری کی رپورٹ آنے تک کوئی فیصلہ نہیں ہوگا۔

جناب عالی، آپ کی بات میں ہو سکتا ہے سچائی ہو کہ بلال کا قتل منشیات فروشوں کی فائرنگ سے ہوا ہو، بہر حال یہ سچائی تو جلد منظر عام پر آجائے گی لیکن مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے اور پچھلے کئی برسوں سے پولیس کے تمام اعلیٰ افسران سے سن بھی رہا ہو ں کہ ہم نے پولیس کی ٹریننگ کو ٹھیک کردیا اور کر رہے ہیں ہم نے شہر سے جرائم کا تقریباً خاتمہ بھی کردیا ہے اور اگر ایسا ہے تو خلجی گوٹھ جس علاقے میں واقع ہے کیا وہاں پر قانون لاگو نہیں ہوتا ؟ اور اگر ہوتا ہے تو منشیات کے اڈوں کے بارے میں ہم کئی برسوں سے یہ بھی سنتے آرہے کہ یہاں منشیات کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے اور اگر ایسا سے تو یہ سوال اٹھتا کہ ان سے پہلے افسران کیا وہاں سے فیض یاب ہوتے رہے یا پھر ان میں اتنا خوف تھا کہ وہ اس علاقے میں جا نہیں سکتے تھے۔

دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پولیس میں ابھی تک سفارشی بنیادوں پر تعیناتی کروانے والے جنہیں ہم کالی بھڑیں بھی کہتے ہیں وہ منشیات فروشوں کی گود میں بیٹھے ہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو آپ کے دعوے کہاں گئے۔

عوام پولیس کے افسران سے اس سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ اگر آپ ایک بڑی کارروائی کرکے منشیات فروشوں کو گرفتار کرکے ان کے اڈوں کو مسمار کر بھی دیں تو کیا نوجوان بلال دوبارہ زندہ ہوجائے گا؟ کیا اس ماں کی گود دوبارہ بھر جائے گی؟ کیا اوہ بیٹے کے ماتھے پر سہرا سجتے ہوئے دیکھ سکے گی؟ اور اگر آپ پھر بھی ان ظالموں کیخلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے تو یہ  ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہوگا۔



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.