پانی کا بحران اور چندے کا ڈیم

Water crisis in Pakistan

تحریر: رباب رضا 

مصیبت جب سر پر پڑتی ہے تب ہی دماغ کی بتی جلتی ہے۔ کیا کریں ہم پاکستانیوں کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے۔ جب تک کوئی مسئلہ بحران کی شکل اختیار نہیں کرلیتا تب تک اس پر کوئی پریشان نہیں ہوتا۔ ایسا ہی کچھ پانی کے مسئلے پر بھی ہوا ہے۔

پاکستان میں پانی کے مسئلے کے دو رخ ہیں ایک رخ بھارتی سازش ہے ۔ بھارت پانی روک رہا ہے بات درست بھی ہے۔ بھارت ایک چھوڑ دو دو ڈیموں پر کام شروع کرنے کے بعد اختتامی مراحل تک لے  آیا  ہے۔ دشمن ملک نے جب چاہا سندھ طاس معاہدے کی خلاف وزری کی اور تو اور جب ہم نےعالمی عدالت اورعالمی بینک کا رخ کیا تو بھی بھارت نے بھرپور لابنگ سے نہ صرف پاکستان کے موقف کورد کروایا بلکہ تمام فیصلےاپنے حق میں بھی کروالئے۔

اس سارے عرصے میں ہم کیا کر رہے تھے، ہم اس مسئلے کے بحران بننے انتظار کر تے رہے۔ کیا کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے ہم نے ؟ پانی کا مسئلہ بیرونی سے زیادہ اندرونی ہے۔

بات کرتے ہیں اندرونی مسائل کی ۔ اپنے طور پر ہم نے کبھی پانی کو اہمیت نہیں دی۔ بچت تو دور کی بات بہتر اور ایفیشینٹ استعمال کو بھی یقینی نہیں بنایا گیا۔ سالانہ اکیس ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ بجلی کٹ جانےکے ڈرسے پاکستانی بجلی کا بل تو فوری طور پر جمع کروادیتے ہیں مگر پانی بند نہیں ہوتا  اس لئے  اس کا بل دینے میں  کوئی سنجیدہ نہیں۔ سالانہ اربوں روپے کی عدم ادائیگیاں بڑھ رہی ہیں۔ پانی کے بل بھی فکسڈ ہیں یعنی استعمال کے حساب سے نہیں بلکہ گھر اور فلیٹ کے حساب سے ہیں۔

پانی کا ذخیرہ پاکستان میں ایک عرصے سے سیاست کا محور بنا ہوا ہے۔ کالاباغ ڈیم نہیں بننے دیا گیا۔ اس کو بننا چاہیئے یا  نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے  مگر اس ڈیم کے منصوبے پر سیاست خوب ہوئی ۔یہاں تک کہ اب جو ڈیم بننےکا شور اٹھا ہے اس پر بھی اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں ۔  البتہ موجودہ ملکی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اعتراضات کی آواز کافی دبی ہوئی ہے۔

اب بات کرتے ہیں ڈیم بناؤ مہم کی۔ ڈیم بننے سے پاکستان کو دوہزار پچیس تک پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں بائیس ارب کیوبک میٹر کا اضافہ ہوگا۔ صرف بھاشا ڈیم کی تعمیری لاگت تقریباً بیس ارب ڈالرز تک جاسکتی ہے۔ اس کا مطب پچیس سو ارب روپے ہے  یعنی اگر پاکستان کی آبادی اکیس کروڑ ہے تو ہر پاکستانی کو کم ازکم ساڑھے بارہ ہزار روپے عطیہ دینا ہوگا۔

دلچسپ بات یہ کہ ملک  کا ہر شہری غیر ملکی قرضوں کے باعث ایک لاکھ پینتیس ہزار روپے کا  پہلے ہی مقروض ہے ۔ یعنی ایک لاکھ سینتیس ہزار روپے تو ملک کیلئے ہر ایک کو چاہیئں۔اگر دو میاں بیوی اور دو بچے ہیں تو ایک گھر سے کم از کم پانچ لاکھ نوے ہزار روپے ملکی مفاد کیلئے درکار ہیں۔

 سوال یہ ہے کہ وہ قوم جو پانی کا بل نہیں دیتی کیا وہ یہ رقم دے گی؟ اور وقت بھی کم از کم دس سال درکار ہوگا۔شاید اسی پر شاعر نے کہا ہے ،کون جیتا ہے تیری زلف کر سرہونے تک۔ میری ناقص رائے میں چندہ اور دیگر مہمات اگر ناکام نہیں تو کامیاب بھی نہیں ہوتی نظر آرہیں۔  البتہ بجلی اور پانی کے بلوں کی ادائیگی کو موثر بنا کر اور پانی کے بہتر استعمال کو یقینی بناکر پانی کے بحران کے حل کی طرف پہلا مثبت قدم ضرور اٹھایا جاسکتا ہے۔ 




اس تحریر کی مصنفہ رباب رضا، عامل صحافی ہیں اور مختلف نیوز ٹی وی چینلز میں کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں۔ ان سے ان کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔@rababkashif

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

  1. What is the difference between casino games and slots?
    Slot games are the most www.jtmhub.com popular types of casino games, and the majority 토토 are 출장샵 slots. poormansguidetocasinogambling.com and the most filmfileeurope.com commonly played slot games.

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.