جمہوریت سے کوسوں دور سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوریت کیا لائیں گی؟

جمہوریت سے کوسوں دور سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوریت کیا لائیں گی؟

تحریر: بابرخان

پاکستان کی سیاست بھی عجیب ہے اور یہاں کے لوگ اس سے بھی زیادہ عجیب۔ پوری دنیا میں لوگ سیاسی پارٹیوں کو ان کے منشور اور ان کی پالیسی کی بناء پر پسند یا ناپسند کرتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔

پاکستان کے عوام سیاسی لیڈروں کو اپنے علاقائی اور ہم زبان ہونے کے ناطے سپورٹ کرتے ہیں۔ سندھی ہے تو لازمی ہے وہ پیپلز پارٹی کو سپورٹ کرے۔ پنجابی ہے تو مسلم لیگ نون کو سپورٹ کرے۔  پٹھان ہے تو اے این پی کو اور مہاجر ہے تو ایم کیو ایم کو لیکن یہ سب پہلے کی باتیں تھیں، اب ایسا نہیں ہے۔

 جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے اور اس سے بھی زیادہ جب سے سوشل میڈیا عام ہوا ہے، ہر ایک اپنی رائے کا اظہار کرنے میں آزاد ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا تو اتنا مضبوط ہوگیا ہے کہ اب رائے عامہ سوشل میڈیا کے ٹرینڈ کو دیکھ کر بنتی ہے۔

اس بار الیکشن بہت ہی زبردست ہوگا۔ جو سیاسی پارٹی عوام سے مضبوط رشتہ رکھے گی وہ ہی کامیابی حاصل کرے گی۔ میں نے کراچی میں پہلی بار دیکھا کے ہر علاقے میں پیپلز پارٹی، پی ایس پی، نو ن لیگ، پی ٹی آئی، ایم ایم اے، آل پاکستان مسلم لیگ اور ایم کیو ایم، ہر پارٹی کے یونٹ آفس بنے ہوئے ہیں ۔

 ہر کوئی اپنے امیدوار کےلئے بھرپور مہم چلا رہا ہے۔ تمام ہی پارٹیاں وہ ہی پرانی باتیں کر رہی ہیں کہ اس بار ہم جیتے تو شہر کی تقدیر بدل دیں گے۔ شہر کو پیرس بنادیں گے۔ ہماری ان سیاسی پارٹیوں سے گزارش ہے کہ کراچی کو پیرس بنائیں یا نہ بنائیں، مہربانی کر کے کراچی کو کراچی تو بنا ہی دیں ۔

 کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جمہوریت کی دعویدار یہ سیاسی پارٹیاں خود تو جمہوریت سے کوسوں دور ہیں۔ ملک میں جمہوریت کیا لائیں گی۔  بڑی سیاسی پارٹیوں کے تمام تر معاملات ان کے لیڈر کے گرد گھومتے ہیں۔ نون لیگ کا سب کچھ نواز شریف اور ان کی فیملی کے اردگرد ہی گھومتا ہے۔

پیپلز پارٹی کو دیکھ لیں تو وہ اب تک بھٹو سے باہر نہیں آئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے تجربہ کاررہنماء بیچارے نوجوان بلاول کے آگے سرجھکائے بیٹھے ہوتے ہیں، صرف اس لئے کہ ان کے نام کے آگے بھٹو نہیں لگا۔

پی ٹی آئی میں آجائیں تو عمران خان کے آگے انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ ایم کیو ایم بھی الطاف حسین سے آگے نہیں بڑھتی تھی اوراب صورتحال یہ ہے کہ وہ ہی ایم کیوایم کئی دھڑوں میں بٹ گئی جو کہتی تھی ہمیں منزل نہیں رہنماء چاہیئے۔ اگر رہنما ہی چاہیئے تھا تو پارٹی کیوں بنائی۔ رہنماء کو اپنے پاس رکھ لیتے اور زندگی گزارلیتے۔


خیر الیکشن کا دور دورہ ہے۔ کس کا ووٹ بینک اچھا ہے۔ کس کی پوزیشن مضبوط ہے اور کون الیکشن جیتے گا۔ یہ پچیس جولائی کو کلئیر ہوجائے گا لیکن اس بار حالات دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔ مخلوط حکومت بنے گی اوریہ نہ ہو کہ سیایسی پارٹیاں حکومت بنانے کے لئے ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا شروع کردیں اور عوام وہیں کے وہیں کھڑے رہ جائیں جہاں وہ پہلے تھے۔



اس تحریر کے مصنف بابر خان منجھے ہوئے اسپورٹس جرنلسٹ ہیں اور آج کل ایک نیوز چینل میں اسپورٹس پروڈیوسر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ اسپورٹس کے ساتھ مختلف موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں اور ان کے کالم مختلف اخبارات، جرائد و ویب سائٹس پر شایع ہوتے ہیں۔ ان سے ٹوئیٹر  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.