قرار بے قرار

 

iqrar ul hassan was beaten up

تحریر: عبید شاہ

صحافی جب خبر کی تلاش میں مجسٹریٹ یا تھانیدار بن جائے تو یہی ہوتا ہے جو اقرار کیساتھ ہوا۔ آپ کرپشن بے نقاب کریں موقف لیں دفتر جا کر  آن کیمرہ جرح اور جرم قبول کروائیں گے تو بات نازک اعضاء تک جائیگی ہی ۔

نو ہزار سے زائد افراد نادرا شناختی کارڈ کے حصول کے لیئے متعدد اداروں سے ویری فکیشن یا این او سی کی ذلت جھیلتے ہیں، ایسے میں اداروں کی رشوت ستانی بے نقاب کرنا قابل تعریف تو ہے لیکن میرے دیس میں ہر کوئی اپنا زور جہاں چلا سکتا ہے چلا لیتا ہے خیر اس خبر  کا مقصد اداروں کے پر تشدد فعل کو تقویت دینا ہر گز نہیں اسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن  جب آپ محض ایک الزام پر سرعام ایک شخص کو تھپڑ رسید کرنے کو اپنی اتھارٹی سمجھ سکتے ہیں تو دوسرا زور آور بھی کسی حد تک جاسکتا ہے۔

 قومی شناختی کارڈ کا حصول نادرا کے مطابق جتنا سہل بنادیا گیا ہے اسکی مثال خود حکومت دیتے دیتے نہیں تھکتی آپ کی فیملی ٹری بینک اکائونٹس  پلاٹس گاڑی موبائل سم اور مقدمات کی تفصیلات سب آپ کے انگوٹھے میں ہوتی ہے لیکن اس شہر کے کچھ علاقوں کے انگوٹھے انتہائی مشکوک ہیں جن میں سر فہرست اورنگی ٹاؤن  اور کورنگی ہیں ان علاقوں کے انگوٹھے اپنی شناخت کے لیے ایڑھیوں کی مدد لیتے ہیں جو انہیں ایک دفتر سے دوسرے دفتر گھسیٹنے میں سہولت کاری کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ انہی انگوٹھوں سے verification یا NOC کی مد میں گھر آکر چھان بین کرنے والے آئی بی کے افسران رشوت کا مطالبہ کرتے اور رشوت ملنے پر انگوٹھا معتبر کر جاتے ہیں۔ رشوت نہ دینے کی صورت میں انگوٹھے کیساتھ ایڑی کو بھی رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ایسے عناصر  کو سرعام بے نقاب کیا اقرار الحسن صاحب نے ۔

 کیا بات بس اتنی ہی تھی جی نہیں ۔۔۔۔۔ اگر ایک حساس ادارے کو سرکاری اسپتال یا واٹر بورڈ کا دفتر سمجھ کر جرح اور جرم قبول کروانے کا سوموٹو ایکشن لیں گے تو یہ جھیلنا تو پڑے گا ہی ویسے سرکاری دفاتر میں موقف لینے کے چکر میں بھی ہم نے بہت سے صحافیوں کے کپڑے پھٹتے دیکھیں ہیں یہ تو پھر بھی۔۔۔

ادارے کی کالی بھیڑوں کی کرپشن نااہلی اختیارات سے تجاوز اورایسےافسران کو بے نقاب کریں، ادارے کا موقف لیں you are guilty  کہہ کر ہتھوڑا مار نا اور کیس اگلی قسط تک Dismissکر دینا آپکا دائرہ اختیار نہیں یہ کام تو عدلیہ کا ہے۔

اسٹنگ آپریشن جیسے پروگرامات کی عوام میں مقبولیت تو ضرور بڑھی ہے لیکن ایسے پروگرامات کی وجہ سے سدھار کہیں دیکھنے کو نہیں ملا  بلکہ ذاتی چپقلش  یا انتقامی کارروائیوں کے طور پر اسے ہتھیار بنایا گیا۔ اسٹنگ آپریشن۔پروگرامات کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کے آئندہ چند سالوں میں ایسے پروگرامات کے نام میری عدالت،میرا انصاف، میرا قانون ، کیمرہ زما قانون دے، اندھیری راتوں میں سنسان راہوں پر ایک چینل نکلتا ہے جسے لوگ مسیحا کہتے ہیں رکھا جانے لگے گا۔

لاہور اقبال پارک میں خاتون کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی و بیہودگی سے کسی کو انکار نہیں لیکن جب عوامل اور نیت کا عمل دخل جذبات سے ہٹ کر دیکھنے کو ملا تو اقرار صاحب معذرت کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔ امید کرتا ہوں، اقرار صاحب ،لاہور پارک والی لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھنے والی جذباتیت سے کام لینا بند کرتے ہوئے، آئندہ خبر بننے کے بجائے خبر دینے پر ہی فوکس کریں گے۔




اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک ٹی وی نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدانِ صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.