بھکاری


Beggers in Pakistan during Ramadan

تحریر : شاہد انجم

ماہ صیام کا چاند نظر آیا تو ہر طرف رونق ہی رونق نظر آرہی تھی لوگ ایکدوسرے کو مبارک مہینے کی مبارکباد دے رہے تھے۔ ایسا  لگ رہا تھا کہ جیسے ہم سب کی صفوں میں اب کوئی کوئی دوسرا نہیں ہے تمام مسلمان ایک دوسرے سے کتنی محبت کرتے ہیں اس کا اندازہ بھی خوب ہورہا تھا،بچپن یاد آگیا۔

ہر ضیف العمر خاتون سر پر ہاتھ رکھ کر ایسے پیار کررہی تھی کہ جیسے ہم اسی کی گود میں پل کر جوان ہوئے ہوں۔ اس کی محبت کی خوشبو کسی عطر سے کم نہیں تھی۔ بہنوں کا پیار بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا ۔بزرگوں کی طرف سے ہر نوجوان کو ملنے والی دعائیں بھی ایک نظم کی سی مٹھاس بن کر کانوں میں رس گھول رہی تھیں جس کے بعد اپنے موبائل فون پر ایسے ہی پیغامات کا سلسلہ شروع ہوا جوکہ اگلے روز تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

اسی دوران بعض ایسے افراد کی فون کال آئی جو صرف یہ معلوم کررہے تھے کہ کیا آپ کے علاقے میں ایسے لوگوں کا بھی بسیرا ہے جو کہ بہت غریب اور محتاج ہوں ماہ صیام میں ان کی مدد کی جاسکے اور انہیں کھانے پینے کی اشیاء پہنچائی جاسکیں۔  اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی فہرست فوری طور پر تیار کرلی جائے تاکہ ان لوگوں کے گھروں میں راشن کی ترسیل جتنی جلدی ہوسکے مکمل کرلی جائے اور ثواب حاصل کیا جاسکے۔

کئی ایسے گھرانے ہیں جنہیں میں ذاتی طور پر بھی جانتا تھا ان کے نام میرے ذہن میں گردش کرنے لگے میں نے حامی بھرتے ہوئے کہا کہ مجھے تھوڑا وقت دیں تاکہ میں آپ کو ان کی فہرست پہنچا سکوں۔ میں چاہتا تھا کہ نیک نیتی کے مطابق اصل حقداروں تک  ان کا حق پہنچ سکے ایسا ہی ہوا میں نے دو روز میں غریب اور مستحق افراد کی ایک فہرست جو کہ پانچ سو کے لگ بھگ تھی پہنچا دی اور کہا اب یہ آپ کا کام ہے کہ ان خاندانوں تک سامان کی ترسیل کریں۔

اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی سوچ رہا تھا کیا ہم یہ سب نہ کریں تو  یہ لوگ ہماری طرح ماہ صیام کی خوشیاں اور اس کے بعد سب سے بڑی خوشی جوکہ عیدالفطر کی صورت میں آتی ہے کیسے منائیں گے، ان کے بچے ہمارے بچوں کی طرح عید پر نئے کپڑے پہن سکیں گے اور ہم انہیں سامان پہنچا کر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔

ہماری نیت جو بھی ہو لیکن ہم جن کو سامان دیتے ہیں کیا ان کی نظریں ہمارے سامنے اٹھ پائیں گی۔ میں یہ سوچنےپر مجبور تھا کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی نظام نہیں بن سکا جس پر مخیر حضرات بھروسہ کر سکیں۔ رمضان المبارک میں خطیر رقم غریبوں میں بانٹی جاتی ہے۔ کیا اس رقم سے کوئی ایسا نظام نہیں بنایا جاسکتا جس کے ذریعہ غریبوں کے روزگار کا بندوبست ہوسکے اور وہ ہاتھ پھیلانے کے بجائے محنت مزدوری کر کے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔

اگر دیکھا جائے تو ماضی میں ہمارے ملک کی نامور شخصیات سے خطیر رقم لی گئی اور اس کے بعد آج تک اس رقم کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں ۔شاید اسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے مخیر حضرات کا بھروسہ اٹھ گیا اور اب وہ غریبوں کی براہ راست مدد پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید آج ہماری قوم کی جوان بیٹیاں، معصوم بچے چوراہوں پر بھیک نہ مانگتے، مجبور مائیں خود کو بے سہارا کہہ کر  ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ ہوتیں۔

سیاسی پنڈتوں کو آنے والے وقت کے بارے میں سوچنا چاہیے۔  اگر وہ ایمانداری سے اس فریضہ کو نبھانا چاہیں تو آج بھی اس ملک میں مخیر حضرات کی کمی نہیں۔ ذراسوچیئے ؟




اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.