وفاقی بیربل

Prime Minister Imran Khan with Information Miniser Fawad Chaudhry

تحریر: عبید شاہ

یہ 1556 عیسوی ہے، مغلیہ سلطنت کا تیسرا فرما ں رواں جلال الدین اکبر  اپنے دربار میں نو رتنوں کے درمیان بینگن کی برائی بیان کر رہا تھا، جو کچھ اس قسم کی تھی کہ بینگن بھی کوئی ترکاری ہے؟ سیاہ،بے ڈول،مضر صحت وغیرہ وغیرہ، بیربل ہاں میں ہاں ملائے جا رہا تھا اور کہے جا رہا تھا کہ "حضور آپ صحیح فرما رہے ہیں"۔

دوسرے روزجب اکبر بادشاہ اپنے دربار میں آیا اور درباریوں کے سامنے بینگن کی تعریف کی توسب تعریف کرنے لگے اور جی حضور، جی حضور کہنے والوں میں بیربل سب سے آگے تھا۔ اکبر متعجب ہو کر سوچنے لگا کہ جب میں بینگن کی برائی کر رہا تھا تو بیربل ہاں میں ہاں ملا رہا تھا اور جب بینگن کی تعریف کر رہا ہوں تو بھی جی حضور، جی حضور کررہا ہے۔

اکبر نے بیربل سے اس کا سبب جاننا چاہا تو بیربل نے بڑے ادب سے کہا، "حضور میں آپ کا نوکر ہوں، بینگن کا نہیں"۔   بیربل کو کئی دیہی کہانیاں یا دتھیں شگوفے اور شاعرانہ انداز میں جلال الدین اکبر  کی تعریف و توصیف اور کسی بھی حکم کی بجا آوری میں جو حکم ظل الہٰی کی تکبیر نے اُسے سلطنت مغلیہ کے نو رتنوں میں شامل کرلیا، یہی نہیں اکثریت پر غلبہ کے لیئے دین اکبری (دین الہٰی) کی بنیاد رکھی گئی تو یہی بیربل پہلا ہندو تھا جس نے اس مذہب کو قبول کیا۔  

میرے وطن کے بیربل بھی اتنے ہی شاطر اور چاپلوس ہیں کہ وقت کے اکبر اعظم کے سامنے بیگن کی افادیت پر اپنا نکتہ نظر تو دور،  دن کو رات، رات کو دن کہنے سے بھی نہیں کتراتے۔  

یہ بیربلز اطلاعات،خزانہ و داخلہ تو کیا عظمیٰ میں بھی پائے جاتے ہیں۔  اکبر تو بلا شرکت ِغیر بادشاہ ہے  اور بادشاہ تو طرح طرح کی خواہش کو فوری بجالانے، بصورت دیگر سر قلم کر دینے کی شاہانہ روایت سے مجبور ہوتے ہیں تو ایسے میں یہ بیربلز اس کی ہاں میں ہاں ملا کر  نہ صرف اکبر کے نفس کی تسکین کا باعث بنتے ہیں بلکہ اسے ملک و قوم کا وسیع تر مفاد بھی قرار دے دیتے ہیں۔  اس طرح کرنے سے جلال الدین اکبر انہیں اپنے رتنوں میں شامل کرلیتا ہے۔

دور حاضر کے بیربلز کا کام صرف جی حضوری نہیں بلکہ اکبر کی اُدھڑن کو رفو کرنا بھی ہوتا بالکل اُس بادشاہ کی طرح جس نے ایک رفو گر رکھا تھا۔  وہ کپڑا نہیں بلکہ باتیں رفو کرنے کا ماہر تھا۔ وہ بادشاہ سلامت کی ہر بات کی کچھ نہ کچھ ایسی وضاحت کردیتا کہ سننے والے سر دھننے لگتے ۔ ایک دن بادشاہ سلامت دربار لگا کر اپنی جوانی کے شکار کی کہانیاں سنا کر درباریوں کو مرعوب کر رہا تھا۔ جوش میں آکر کہنے لگا ایک بار تو ایسا ہوا کہ میں نے آدھے کوس سے نشانہ لگا کر جو ایک ہرن کو تیر مارا تو تیر سنسناتا ہوا گیا اور ہرن کی بائیں آنکھ میں لگ کر دائیں کان سے ہوتا ہوا پچھلی دائیں ٹانگ کے کھر میں جا لگا۔

بادشاہ سلامت کو توقع تھی کہ درباری اسے داد دیں گے مگر وہاں تو خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وہ بادشاہ کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے۔ بادشاہ نے رفو گر کی طرف دیکھا کیونکہ اسے بھی احساس ہوا کہ کچھ زیادہ ہی لمبی چھوڑ دی ہے۔ رفو گر اٹھا اور کہنے لگا۔ حضرات میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ در اصل بادشاہ سلامت ایک پہاڑی کے اوپر کھڑے تھے اور ہرن بہت نیچے تھا، ہوا بھی موافق چل رہی تھی ورنہ تیر آدھا کوس کہاں جاتا ہے۔

جہاں تک تعلق ہے آنکھ،  کان اور کھر کا تو عرض کردوں کہ جس وقت تیر لگا ہرن دائیں کھر سے دایاں کان کھجا رہا تھا یوں یہ نا ممکن واقعہ وقوع پذیر ہوگیا۔ اس رفو گر نے تو بادشاہ کی نوکری اس رفو گری کے بعد چھوڑ دی لیکن اکبر کے پاس ایک ایسا رفو گر ہے جو پورا تمبو بھی رفو کرنا ہوتو پیچھے نہیں ہٹتا۔ اکبر کے قول و فعل کے تضاد کو عوام نے یو ٹرن کا نام دیا تو رفو گر نے اسے "رجوع" کے مہذب لبادے میں پیش کر ڈالا۔

بیربلوں نے یو ٹرن کو اعلیٰ قائدین کی حکمت ٹھہرایا  تو کسی نے اپنی زندگی ہی یوٹرن سے عبارت کرلی۔ کسی نے اسے لیڈر کی شان کہا تو کسی نے اسے عظیم قائد بنئے کا کلیہ قرار دے دیا۔ بات یہی ختم نہیں ہوتی، وطن کے سپاہی کی دوسرے ملک سے لاش ملتی ہے تو بیربل کہتا ہے ابھی مل کر گیا ہے چھٹیوں پر ہے، دوسرا بیربل کہتا ہے ظل الہٰی کا بھلا کیا کوئی قصور  کیمرے ہی صحیح نہیں اور تو اور جس ملک سے سپاہی کی لاش ملی وہ پٹرولنگ بھی نہیں کرتے۔ 

 ایک اور چہیتا  بیربل کہتا ہے کہ دہشت گرد پریس کلب اور بار کے کارڈ بنا کر دہشت گردی کر رہے ہیں جب کہ ان کے ظل الہٰی اسے غلط فہمی پر مبنی کارروائی کہہ چکے ہیں لیکن بیربل ہے کہ ظل الہٰی کے دین الہٰی میں گُم ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جلال الدین اکبر کی وجہ موت پیچش بنی جبکہ 1586 میں بیربل کی قیادت میں اکبر کے بھائی حکیم مرزا کی سرکوبی کے لیے کابل کی طرف فوج بھیجی گئی جو ناکام رہی اور بیربل اس لڑائی میں مارا گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کے وقت کے اکبر اور بیربل کے قصے ایسے ہی تمام ہوتے آئے ہیں آج نہیں تو کل ظل الہٰی کو لوز موشن لگ جائیں گے اور یہ بیربل کسی بڑی مہم میں کام آجائیں گے۔ 



اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک ٹی وی نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدانِ صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.