نیا قبضہ جائز۔۔۔ پرانا قبضہ ناجائز؟

Police on court orders reach Pakistan Quarters to evict 'illegal occupants'

تحریر: کاشف فاروقی

پاکستان کوارٹرز اور ان سے  ملحقہ سرکاری زمین پر قائم کوارٹرز کا معاملہ کئی برسوں سے چل رہا ہے، سرکار کا موقف ہے کہ یہ وفاقی حکومت کی زمین ہے جس پرکسی زمانے میں کواٹرز تعمیر کرکے سرکاری ملازمین کو دیئے گئے تھے، لیکن ملک میں دیگر بہت سے غلط کاموں کی طرح ایک یہ کام بھی ہوا کہ ان ملازمین سے ریٹارئرمنٹ کے بعد کواٹرز خالی نہیں کرائے گئے، لہذا بہت سے ملازمین کے اہل خانہ ان کے ساتھ اور کئی ان کے بعد بھی ان کواٹرز میں مقیم ہیں، بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جنہوں نے کوارٹرز ریٹارئرڈ سرکاری ملازمین یا ان کی اولادوں سے خرید  کر ازسرنو گھر تعمیر کیئے یا پھر کوارٹرز کی مرمت پر خطیر رقم خرچ کرکے اسے رہنے کے قابل بنایا ہے۔

رواں برس ہوئے عام انتخاب سے قبل یہ معاملہ ایک بار پھر سے اٹھا تو مالکانہ حقوق کا مطالبہ حلقے کیلئے انتخابی نعرہ بن کر سامنے آیا لیکن بدقسمتی سے ان سیاسی جماعتوں کے امیدوار جو کوارٹرز کے رہائشیوں کے ساتھ کئی برسوں سے کھڑے تھے پیچھے رہ گئے اور ہمیشہ کی طرح چال بازوں کا وار چل گیا۔ جھانسہ دینے والے  ووٹ لے کر گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگئے۔

چند روز قبل عدالتی احکامات پر پولیس نے گرینڈ آپریشن کی تیاری کی، کوارٹرز مکین بھی بسا بسایا گھر بچانے سر پر کفن باندھے پولیس کے سامنے آگئے اور خوب دھماچوکڑی مچی۔  سیاسی شوبدے باز بھی موقع سے فائدہ اٹھانے پہنچ گئے لیکن وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ کا وقت اور موثر اقدام اور احکامات سے معاملہ کسی بڑے نقصان کی طرف جانے سے روک دیا گی جبکہ چیف جسٹس نے گورنر سندھ کی درخواست پر ڈیڈلائن میں تین ماہ کی توسیع کردی۔

ملک کے قاضی اعلٰی (چیف جسٹس) کراچی آئے تو کوارٹرز کے مکین ان کے در پر فریاد کیلئے سپریم کورٹ پہنچے۔ جسٹس ثاقب نثار نے مظاہرین کو دیکھا تو گاڑی سے اتر کران کے پاس آئے اور فریاد سنی۔ میئر کراچی کو طلب کرکے معاملے کی مکمل تفصیلات معلوم کیں، اور معاملات کو درست انداز میں ہینڈل نہ کرنے پر ان کی سرزنش بھی کی۔

چیف جسٹس میئر وسیم اختر سے استفسار کیا کوئی غیر قانونی طور پر مقیم ہے تو اس کو چھوڑ دیں؟ تو میری ادنٰیٰ رائے میں بالکل نہ چھوڑیں لیکن براہِ کرم کاروائی غیر جانبدار اور یکساں بنادیں تاکہ کسی کو شکایت نہ رہے۔

محترم چیف جسٹس اس شہرکے وسط میں ایسی بہت سے کچی آبادیاں ہیں جہاں نوے کی دہائی یا اس سے بھی پہلے لوگ دیگر علاقوں سے آئے اور غیرقانونی طور پر کروڑوں روپے کی سرکاری زمینوں پر قابض ہوگئے۔ حکومت میں براجمان سیاسی جماعت نے اپنے سیاسی مخالفین سے لڑنے اور سیاسی حمایت بڑھانے کیلئے قابضین کو مالکانہ حقوق دے دیئے۔  

مالکانہ حقوق ملنے کے بعد بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی قانونی طور پر شروع ہوئی گئی، اور زمین کی قیمت بڑھنے پر مالکان نے زمین فروخت کرکے کسی اورکروڑوں روپے مالیت کی سرکاری زمین پر نیا ٹھکانہ بنایا اور اب ماضی کی طرح پھر سے کچی آبادیوں کو مستقل کیے جانے کی تیاریاں مکمل ہیں۔

چیف جسٹس صاحب اس تمام عمل سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ  جو لوگ پندرہ، بیس سال ایک جگہ کروڑوں روپے کی سرکاری زمین پر قابض رہیں تو ان کا قبضہ جائز ہے اور جو اس غریب پرور شہر کے پرانے رہنے والے ہیں ان کا قبضہ ناجائز ہے،  حالانکہ بادی النظر میں زمینیں دونوں سرکاری ہیں۔

محترم چیف جسٹس آپ نے بالکل درست فرمایا کہ اس شہر میں پھر سے لسانیت کی آگ نہیں بھڑکنی چاہیے، ہم میں سے کوئی مہاجر، سندھی، پنجابی اور پٹھان نہیں، اس پرچم کےسائے تلے ہم ایک ہیں، ہم سب پاکستانی ہیں، لیکن شہریوں کے ذہنوں میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ جب سب ایک ہیں تو قانون سب کیلئے ایک جیسا کیوں نہیں؟



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔ 

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.