ہم گدھے ہیں، گدھے ہی رہیں گے؟

Review of Pakistan's animated feature film - Donkey King

تحریر: کاشف فاروقی

ٹی وی پر کئی ہفتوں سے پاکستان میں بننے والی اینمیٹڈ فلم کی دھوم تھی۔ دیگر بچوں کی طرح میرے بچے بھی ڈونکی کنگ کی  ریلز سے پہلے ہی اس کے سحر میں مبتلا ہوچکے تھے، جیو مخالفین کی جانب سے فلم کو موجودہ سیاسی حالات پر بنائے جانے کے الزام نے میرے اندر بھی فلم دیکھنے کا شوق پیدا کردیا تھا لہذا فلم ریلز ہوتے تیرہ اکتوبر کو میں بھی مع اہل و عیال گھر کے قریب کھلے جدید سینما گھر پہنچا اور ٹکٹ خرید کر ہال میں براجمان ہوگیا۔

پہلے تو ایک جلد آنے والی امیتابھ بچن کی فلم کا ٹریلر دیکھنے کو ملا، پھر اشتہارات کے بعد بلاآخر مرکزی کردار یعنی "منگو" گدھے کے ایک خواب سے فلم کا آغاز ہوا۔ منگو معروف بھارتی انعامی شو "کون بنے گا کروڑ پتی" میں موجود تھا اور ایک کروڑ روپے جیتنے سے صرف دس سیکنڈ کی دوری پر تھا کہ منگو کا چچا یعنی ایک بوڑھا گدھا اسے خواب سے جگا دیتا ہے اور کہتا ہے خواب دیکھنا چھوڑ دے، ہم گدھے ہیں اور گدھے ہی رہیں گے۔

ابتداء میں تو فلم کی کہانی واقعی بچوں کی فلم جیسی ہی لگتی تھی جس پر میرے بچوں سمیت ہال میں موجود تمام بچے خوب اچھل کود اور تالیاں بجا رہے تھے مگر جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی گئی ملکی صورت حال کی جانب گھومتی گئی۔ پوری کہانی اس لئے نہیں لکھ رہا کہ تحریر لمبی ہوجائے گی  لہذا بہتر ہے کہ کام کی بات کی جائے۔

آزاد نگر یعنی جنگل کا بوڑھا بادشاہ (جوڑوں کے درد سے پریشان شیر) اپنے نالائق بیٹے کو نیا بادشاہ نامزد کرنے ہی والا ہوتا ہے کہ جانوروں میں بے چینی پھیل جاتی ہے اور اسی وقت بادشاہ کی مشیر خاص لومڑی (مس فتنا) ووٹ کے ذریعے نیا بادشاہ چننے کا مشورہ دیتی ہے جس پر بادشاہ پہلے تو غصہ ہوتا ہے تاہم لومڑی کے سمجھانے پر کہ کون شہزادے کے مخالف الیکشن لڑے گا، بوڑھا شیر رضامندی کا اظہار کردیتا ہے مگر لومڑی خود منگو کو شہزادے کے مخالف الیکشن لڑنے پر راضی کرلیتی ہے اور جنگل کے میڈیا ہاؤس سے مالک کے ساتھ مل کر منگو کی الیکشن مہم بھی چلواتی ہے۔

الیکشن سے لاتعلق رہنے والے عوام کو پولنگ اسٹیشن پر غنڈوں سے حملہ کے ذریعے لوگوں کو منگو کیلئے ووٹ دینے کا جوش بھی جگاتی ہے کیونکہ جانوروں کو یہ لالچ ہوتا ہے کہ منگو تو گدھا ہے اور وہ گھاس کھاتا ہے اور اس کے بادشاہ بننے سے جانوروں کی زندگیاں محفوظ ہوجائیں گی۔

منگو بادشاہ بن جاتا ہے اس کی حرکتیں بھی بادشاہوں والی ہی ہوجاتی ہے، لومٹری ازخود نئے بادشاہ کی مشیر مقرر ہوکر مرضی کے ایسے وزراء منتخب کراتی ہے جن تک جانوروں کی شکایات پہنچ ہی نہ پائیں یا پھر پہنچیں بھی تو وہ ان پر کان ہی نہ دھریں۔فلم میں گیس بجلی کی کمی پر گانا بھی ہے۔

دو گھنٹے کی فلم کا دوسرا حصہ شروع ہوتے ہی جنگل کے جانور ایک ایک کرکے لاپتہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں،  ایک سیاہ گاڑی  اندھیرے میں سڑکوں پر موجود اکا دکا جانوروں کو اغواء کرنے لگتی ہے،  جس کے بعد جانور پریشان ہوکر محل پہنچتے ہیں اور منگو بادشاہ کو شکایت کرتے ہیں مگر منگو عیش و آرام کا عادی ہوچکا ہوتا ہے لہذا شکایت پر آئی جی کوانکوائری کے احکامات صادر کرکے آرام کرنے چل پڑتا ہے۔

منگو بادشاہ ہوش کے ناخن نہیں لیتا مگر جب وہ ٹی وی پر ایک اور جانور کے لاپتہ ہونے کی خبر خود دیکھتا ہے  تو اسے واقعی ہوش آتا ہے اور وہ خود جانور کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔

منگو حادثاتی طور پر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں نہ صرف لاپتہ جانور بلکہ بوڑھا بادشاہ شیر اپنے بیٹے سمیت قید ہوتا ہے۔ منگو کو اس جگہ لومڑی کے اصل  منصوبے کا علم ہوتا ہے جس کیلئے اسے بادشاہ بنایا گیا تھا، لومڑی تمام جانوروں کو سرکس والے کو فروخت کرنے کی ڈیل کرچکی ہوتی ہے۔

اس تمام کہانی سے جو بات میری سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ منگو ایک ایماندار اور سب کا مددگار گدھا تھا لیکن نظام حکومت چلانے کیلئے صرف یہ دو صفات کافی نہیں۔ منگو کو اپنی حالت بدلنے کا جنون کی حد تک شوق تھا، دیگر جانوروں کی اپنی لالچ تھی مگر منگو تھا تو گدھا ہی۔

کوئی شبہ نہیں کہ فلم بچوں کی ہے لیکن فلم ڈائریکٹر نے بالکل صحیح کہا ہے کہ یہ فلم 9 سے 99 سال تک کی عمر کے لوگوں کیلئے ہے اور میری رائے میں ہر عام پاکستانی کو ڈونکی کنگ ضرور دیکھنی چاہیے کیونکہ ملکی حالات سمجھنے کا اس سے بہتر اور پرلطف ذریعہ فی الوقت دستیاب نہیں ہوسکتا۔




اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

  1. ابتداء میں تو فلم کی کہانی واقعی بچوں کی فلم جیسی ہی لگتی تھی جس پر میرے بچوں سمیت ہال میں موجود تمام بچے خوب اچھل کود اور تالیاں بجا رہے تھے مگر جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی گئی ملکی صورت حال کی جانب گھومتی گئی۔ پوری کہانی اس لئے نہیں لکھ رہا کہ تحریر لمبی ہوجائے گی لہذا بہتر ہے کہ کام کی بات کی جائے۔
    funny movies

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.