سانحہ کارساز، شہداء کے ورثاء کو انصاف کب ملے گا؟

Anniversary of Karsaz tragedy in Karachi that killed more than 200 people

تحریر: شاہد انجم

ماں کہہ کر معصوم بچہ صوفے پر گر گیا اس کی آنکھیں ٹیلی ویژن کی اس اسکرین پر تھی یہاں بریکنگ نیوز میں اس کے والد کا نام لیا جارہا تھا۔ بچے کی ماں باورچی خانہ میں برتن دھو رہی تھی بچے کی آواز سن کر بھاگتی ہوئی کمرے میں پہنچی اور پوچھا بیٹا کیا بات ہے؟ کیوں شور مچا رہے ہو؟ بچہ ابھی  صحیح سے بول نہیں پاتا تھا اور ماں کو سمجانے سے قاصر تھا لیکن اس نے اپنی ماں کی توجہ ٹی وی کی اسکرین کی جانب دلاتے ہوئے پاپا پاپا پکارا تو ماں نے بیٹے کو گلے لگا کر جب ٹی وی اسکرین پر نظر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ بچہ کیوں اچانک بے چین ہوا ہے۔
                  
ایک نجی ٹی وی چینل پر اس کے شوہر کی شہادت کی خبر چل رہی تھی مگر وہ تسلیم کرنے کو تیار اس لیے نہیں تھی کہ یہ خبر اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے آئی۔ معصوم بیٹے کو جو کہ ابھی اتنی سمجھ بوجھ نہیں رکھتا تھا یہ کہہ رہی تھی یہ خبر کیا ہے اس میں تو آپ کے پاپا کا نام آرہا ہے افسوس ناک واقعہ کا اتنا ذہن پر اثر ہوا کہ وہ یہ بھول گئی کہ شوہر کے پاس موبائل فون ہے اس پر بات کرلوں۔

ایسے میں دروازہ پر دستک ہوئی، دروازہ کھولنے پر محلے کی چند عورتیں اور بچے گھر میں داخل ہوئے اور سب کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ کیا خبر ہے؟ کیا اطلاع ہے؟ ہم نے تو بہت افسوس ناک خبر سنی ہے جس پر اس نے جواب دیا کہ میرا ابھی تک کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے، خدا خیر کرے منے کے ابا خیریت سے ہوں۔

دوسری طرف اس کے شوہر کا بڑا بھائی نم آنکھیں لئے شہر کے اسپتالوں کے مردہ خانوں اور ایمرجنسی  وارڈز میں موجود لوگوں سے اپنے بھائی کے بارے میں پوچھتا پھر رہا تھا اچانک اسے چھوٹے بھائی کے ایک دوست کی کال آئی جس نے بتایا کہ شاہد دھماکے میں زخمی ہوا ہے، وہ لیاقت نیشنل اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ہے اور اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ اس فون کال کے بعد بڑھے بھائی نے سب سے پہلے ہاتھ اٹھاکر اللہ کا شکر ادا کیا اور پھر گھر فون کر کے شاہد کی خیریت سے آگاہ کیا اور تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

اس فون کال کے فوری بعد لیاقت نیشنل اسپتال پہنچا، جہاں اپنے بھائی کو پاؤں پر کھڑا دیکھا، اس  کے لباس پر خون کے دھبے لگے تھے، بھائی کو گلے لگا کر جو سکون نصیب ہوا وہ شاید  اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ بھائی کو لے کر دوسرے اسپتال منتقل کرنے کیلئے دونوں ایمبولنس میں سوار ہوئے اور راستے میں دھماکے سے متعلق باتیں کرتے رہے۔ اس دوران شاہد نے بتایا وہ بے نظیر بھٹو کے ٹرک کے نزدیک پولیس موبائل پر سوار تھا کہ کارساز کے قریب اچانک دھماکا ہوا۔

ابھی پہلے دھماکے سے سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ دوسرا دھماکا ہوگیا جو زیادہ طاقتور اور خوفناک تھا اور جس نے ناچتے گاتے، نعرے لگاتے پونے دو سو کے قریب جیتے جاگتے انسانوں کو لاشوں اور گوشت کے جلتے لوتھڑوں میں تبدیل کردیا تھا۔ جہاں چند لمحے پہلے تک زندگی اپنی پوری رعنایوں کے ساتھ جلوہ گر تھی اب وہاں ہر سو آہ و بکا تھی۔

آج وہ سانحہ صرف ایک یاد بن چکا ہے،  جسے ہر سال ایک دن یاد کیا جاتا ہے اور پھر 364 دن اس معاملے پر کوئی بات بھی نہیں کرتا، کوئی نہیں پوچھتا کہ اس حملے میں مارے گئے لوگوں کے قاتلوں کا کیا بنا، بے نظیر بھٹو نے اپنی درخواست میں جن افراد کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا وہ دوبارہ حکومت میں کیسے آگئے؟

پانچ برس ملک پر پیپلزپارٹی کی حکومت رہی اور سندھ میں تو اب بھی اسی کی حکومت ہے تو پھر کیوں سانحہ کارساز کے ذمہ داروں کو سزا نہیں مل سکی؟ ہم کب تک صرف ان شہداء کی سالانہ بنیادوں پر یاد مناتے رہے ہیں گے اور قاتل آزاد گھومتے رہیں گے؟ ذرا سوچیئے!



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.