بیوہ بہوئیں اور تحریک انصاف

Can PTI with coalition government deliver?


خاں صاحب صوم و صلوٰۃ کی پابند اہلیہ اورسات بیوہ بہوؤں کے ہمراہ  زندگی کے بچے کھچے دن گزار رہے تھے۔ خاں صاحب کے ساتوں بیٹے ایک ایک کر کے لسانی فسادات، اسٹریٹ کرائم اور دہشت گردی کی نذر ہوگئے تھے۔

خاں صاحب کے ہاں دولت کی  ریل پیل تھی، بنیادی ضروریات کے ساتھ تقریباً  دنیا کی تمام آسائشیں ہی موجود تھیں۔ ریٹائر ہو کر خاں صاحب سماجی کاموں میں دلچسپی لینے کے ساتھ گھر یلو امور کے منتظم بھی تھے۔  تجوری کی چابی سے لے کر دیگر امور خانہ داری  کی ذمہ داریوں کو تمام بیوہ بہوؤں میں یکساں طور پر بانٹنے کی کوشش کرتے، لیکن کبھی کوئی بہو ناراض ہوجاتی تو کبھی کوئی۔

اہلیہ گھریلو امور سے دور تسبیح تھامے مصلے پر ہی براجمان رہتیں۔ کبھی خاں صاحب پر دم درود کردیتیں تو کبھی مشکلات سے بچاؤ اور مرادوں کے بر آنے کیلئے چھنگلی میں کوئی چھلا پہنا دیتیں یا پھر تعویذ باندھ دیتیں۔ خاں صاحب کو بس ایک ہی فکر تھی کہ زمانے کی نظروں سے بیوہ بہوؤں کو کیسے محفوظ رکھا جائے۔

پوش علاقے اور محفوظ مقام پر رہائش کے باوجود کچھ ایسے لوگ تھے جن کی نظریں خاں صاحب کی بہوؤں پر تھی۔ سردار، بلوچ، چوہدری اور دیگر برادریوں سے بیاہی گئی خاں صاحب کی بہوئیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لئے مشکل بن رہی تھیں۔ ایک بھی بہو بغاوت کر بیٹھتی تو خاں صاحب کے گھر کا شیرازہ ہی بکھر جاتا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاں صاحب کی  بیوہ بہوؤں کی مانگ بڑھنے لگی جس سے خاں صاحب کی مشکلات بھی سنگین ہونے لگیں۔ ایک  تو بات عزت کی  دوسری یہ کہ اگر ایک بھی بیوہ بہو کا پاؤں دہلیز سے باہر جاتا تو خاں صاحب کا برسوں پرانا ہنستے بستے گھر کا خواب چکنا چور ہوجاتا۔

اسی غم میں خاں صاحب ذمہ داریوں سے زیادہ بہوؤں کو راضی اور خوش رکھنے پر توجہ دینے لگے۔ پھر ایک دن وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ خاں صاحب کی سب سے بڑی بہو نے نیا گھر بسانے کیلئے بغاوت کا علم بلند کردیا اور خاں صاحب کی طبعی موت  کے امکانات کم ہونے لگے۔ بیماریوں نے ایسا گھیرا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونا پڑا۔

دوست کی زبانی خاں صاحب کی کہانی سن کر میری توجہ نومنتخب حکومت تحریک انصاف کی جانب گئی۔ بائیس سالہ حصول اقتدار کی سیاسی جدوجہد میں مصروف عمران خان قوم کو میرے عزیز ہم وطنو! کہہ کر مخاطب ہونے میں تو کامیاب  ہوگئے لیکن ایوان کا حال کہانی والے خاں صاحب کے گھر سے کچھ جدا نہیں لگتا۔

تحریک انصاف سات جماعتوں  کی حمایت کے بل بوتے پر اقتدار پر براجمان ہوئی ہے۔ کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر ہونے والی بیک ڈور ڈپلومیسی میں عمران خان کے ساتھ حکومت میں شریک جماعتیں سات بہوؤں سے کم نہیں  جن پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت مولانا  فضل الرحمان بھی فضائل نچھاور کرنے کیلئے تیار ہیں۔ بس بدلے میں حمایت درکار ہے۔

ایسے میں کرپشن کے خاتمے سے لے کر مہنگائی، بے روگاری، بیرونی قرضوں اور دیگر مصائب سے چھٹکارا دلانے کے دعویدار عمران خان کا فوکس ڈی فوکس ہونے کا خدشہ زیادہ ہے۔کسی بھی ایک   اتحادی کی ناراضی قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی محفل سجا سکتی ہے۔

 اس کا انداز ہ اسپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب کے وقت ہوگیا  جب کسٹوڈین آف دا ہاؤس اسد قیصر اور متحدہ اپوزیشن کے امیدوار خورشید شاہ کے درمیان صرف تیس ووٹوں کا فرق سامنے آیا۔ واضح رہے ڈالے گئے تین سو تیس ووٹ میں آٹھ ارکان ایسے بھی سامنے آئے جنہوں نے  اپنی وفاداری پوشیدہ رکھتے ہوئے ووٹ ضائع  کرنے کوترجیح دی۔

اب اس قدر سہارو ں کے ساتھ عمران خان حکومتی معاملات بخوبی چلاسکیں گے یا خاں صاحب کی بہوؤں کی طرح حمایتیوں کو راضی رکھنے میں ہی وقت گزرے گا۔ 



اس تحریر کے مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.