یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے

Prime Minister Imran Khan addressing to the nation - Twitter Image

تحریر: کاشف فاروقی

وزیر اعظم عمران خان نے پہلی تقریر میں کم و بیش وہ ہی باتیں کی ہیں جو وہ اس سے قبل انتخابی مہم کے دوران کرتے رہے ہیں لیکن انتخابی مہم کے مقابلے میں اس تقریر میں عمران خان  کا لب و لہجہ قدرے پراعتماد اور کمپوزڈ  دکھائی دیا۔

بلا شبہ عمران خان سے جتنی مشکل اردو میں حلف لیا گیا عام پاکستانی سے بات کرتے وقت انہوں نے اتنی ہی سہل زبان کا استعمال کیا، ملک کو درپیش چیلنجز کا ذکر کیا، مسائل کا حل بھی تجویز کیا اور آئندہ کے منصوبوں کا بھی کھل کر اظہار کیا۔

نئےنویلے وزیر اعظم نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں انقلابی اصلاحات کی بات کی مگر ان کا زیادہ زور احتساب پر رہا اور انہوں نے پیشگی آگاہ کر دیا ہے کہ جب کڑا  احتساب شروع ہوگا تو بہت سے لوگوں کی چیخیں نکلیں گی اور بات جمہوریت کو خطرہ درپیش ہونے تک بھی پہنچ سکتی ہے مگر وہ کسی کو بخشیں گے نہیں۔ شاید اسی کیلئے انہوں نے خود ہی سب سے بڑا ڈاکو قرار دیئے گئے پرویز الہٰی کو پہلے ہی بخش دیا ہے تاکہ کم از کم ایک چیخ تو کم نکلے۔  

وزیر اعظم عمران خان نے خطاب کے دوران مدینہ کی ریاست کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں مگر خان صاحب کو شاید علم نہیں کہ ان کی اس خواہش پر نام نہاد روشن خیال موم بتی مافیا بھی پیچھے پڑسکتی ہے، کیونکہ ان کا تو خیال یہ ہے کہ عمران خان روشن خیالوں کے نمائندے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ سیاست یا امور ریاست کا بھلا مذہب سے کیا تعلق؟ مذہب تو انسان کا ذاتی معاملہ ہے، اور ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اوپر سے خان صاحب نے ٹیکس کو بھی چودہ سو سال پرانے مذہب کا رکن (زکوٰۃ) سے ملایا، خان صاحب جانتے نہیں کہ آج کل موم بتی مافیا بہت انتہا پسند ہوگئی ہے۔ 

ملک سے باہر رہنے والوں نے تو تقریر میں جنرل ضیاالحق کا عکس تلاش کرنا شروع بھی کردیا ہے،  اور اگر  اس معاملے پر مغرب کیلئے کام کرنے والی این جی اوز کو کہیں سے بیرونی فنڈنگ کا آسرا ہوگیا تو پھر  نئی حکومت کی خیر نہیں۔ عمران خان پر تو پہلے ہی طالبان کی حمایت کا الزام ہے، اگر کہیں عمران خان ملک میں سودی نظام کے خاتمے کی بات بھی کردیتے تو تحریک انصاف کے چیئرمین پر تقریباً جماعت اسلامی کا ایجنڈہ فالو کرنے کا الزام بھی لگ جاتا۔

عمران خان نے اپنے خطاب سے غریب، بے سہارا اور بنیادی سہولیات سے محروم عوام کی توقعات کو مزید مستحکم کردیا ہے، جو عمران کے حامی ہیں وہ مزید متاثر ہوگئے، حمایت اور مخالفت کے درمیان کے لوگوں کا جھکاو بھی ان کی جانب ہوسکتا ہے، لیکن جو کچھ وزیر اعظم نے کہا ہے وہ اتنا بھی آسان نہیں جتنا سمجھا جارہا ہوگا۔

مخالف سیاست دانوں سے زیادہ مزاحمت افسر شاہی کی جانب سے آنے کا اندیشہ ہے اور افسر شاہی  کے پاس تو وہ صلاحیت ہے کہ حکمرانوں کو دن کی روشنی میں بھی چاندنی رات دکھا سکتے ہیں۔ 

پھر ساجھے کی ہنڈیا کی طرح تیار ہونے والی حکومت کے اپنے اتحادی جب نخرے کرنا شروع کریں گے تو ان کے ناز بھی اٹھانا ہوں گے کیونکہ وزیر اعظم کوصرف چار ووٹ کی ہی تو برتری حاصل ہے لیکن پھر بھی اچھے کی امید رکھنی چاہیے، عمران خان نے جو کچھ کہا اس کا ایک چوتھائی بھی کرپائیں تو ملک کے لئے فائدہ مند ہوگا۔



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.