عید قرباں اور شوبازی



ایک دو روز قبل میاں جی کے ساتھ واک کیلئے باہر نکلی تو ہر طرف بڑی تعداد میں قربانی کے جانور نظر آئے۔ ان جانوروں  کے آس پاس لوگوں کا ہجوم نظر آیا اور کانوں میں کچھ اس طرح کی آوازیں بھی پڑیں کہ اس گائے کی جوڑی تو پانچ لاکھ کی ہے، فلاں بلاک میں ایک گائے آئی ہے جس کی قیمت دس لاکھ ہے۔

یہ باتیں سن کر مجھے بےحد حیرت ہوئی اور میں اس سوچ میں پڑ گئی کہ آیا ہم یہ قربانی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں یا پھر لوگوں کی واہ واہ سمیٹنے کیلئے؟

دل بہت اداس ہوا اور ذہن میں ان لوگوں کا بھی خیال آیا جو چاہ کر بھی قربانی نہیں کرپاتے۔ میں نے کچھ خواتین ایسی بھی دیکھی ہیں جو اپنے میاں کو مہنگا بکرا خریدنے پرمجبور کرتی ہیں کچھ کہانیاں تو ایسی بھی سننے کو ملتی ہیں کہ بعض خواتین خاندان اور محلے میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے بڑا اور مہنگا جانور خریدنے کے لئے گھر میں لڑائی جھگڑا تک کرتی ہیں اور مجبوراً میاں کو ادھار مانگ کر ہی لیکن بیگم کا مطالبہ ماننا پڑتا ہے تاکہ اس کی ناک کو خم نہ آئے۔

اگربات کی جائے قربانی کے جانوروں کی قیمتوں کی تو وہ ہرسال گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ ہی ہوتی ہیں۔ سال گزشتہ یعنی کہ دو ہزار سترہ میں مویشی منڈی میں چھوٹے جانوروں کی قیمتیں سنہ دو ہزار سولہ کے مقابلے میں پندرہ فی صد زیادہ رہیں پھر بھی گزشتہ برس بڑے جانوروں کی خریداری میں پندرہ سے سولہ فی صد تک اضافہ ہوا۔ یعنی اجتماعی قربانی کے رجحان میں اضافہ ہوا، اس سے سنت بھی ادا ہوجاتی ہے اور جیب پر زیادہ بوجھ بھی نہیں پڑتا لیکن اکثر لوگ اس کو پسند نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ جانور لیں پڑوس اور خاندان والوں کو پتہ نہ چلے پھر کیا فائدہ۔

بڑے جانوروں کی خرید میں اضافے کی ایک وجہ تو نمائشی کلچر ہے تو دوسری جانب کھال کی قیمتوں میں نمایاں فرق۔ گزشتہ برس بکرے اور دنبے وغیرہ کی کھال ایک سو پچیس سے ایک سو تیس روپے میں فروخت ہوئی جبکہ گائے بیل اور اونٹ کی کھالیں اکیس سو سے بائیس سو روپے کے درمیان فروخت ہوئیں۔

اس سال جانوروں کی قیمتیں پہلے سے بھی زیادہ ہیں جس کی وجہ سے متوسط طبقے کا خریدار سستے جانور کی تلاش میں منڈی کے طول وعرض ہی ناپتا رہتا ہے۔ بڑا طبقہ ہی ہے جو مویشی منڈی سے قربانی کے جانوروں کے ہمراہ شاداں و فرحاں لوٹتا نظر آتا ہے۔

پاکستان میں ہر تہوار کو نہ جانے کمائی کا ہی ذریعہ کیوں سمجھ لیا جاتا ہے۔ چاہے رمضان المبارک ہویا عیدالاضحی، گراں فروشی عروج پر پہنچ جاتی ہے اور متوسط و نچلا طبقہ محض دل مسوس کر ہی رہ جاتا ہے جبکہ دیگر ممالک میں اپنے مذہبی تہواروں کے مواقع پر خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔  افسوس ہم دیگر باتوں میں تو ان کی نقالی کرتے ہیں لیکن اس طرف کبھی ہماری توجہ نہیں گئی۔

ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کا جانور پہلے ذبح ہو اور وہ دوستوں رشتہ داروں میں پہلے گوشت لے کر پہنچے اور بتا سکے کہ بھئی قربانی کی ہے ۔ قربانی کے بعد یہ گوشت اللہ کی راہ میں غریبوں اور ناداروں میں بانٹنے کے بجائے یا تو فریزر میں بھر دیا جاتا ہے یا امیررشتہ داروں میں اچھا اچھا صاف ستھرا گوشت تقسیم کردیا جاتا ہے اور مستحقین کو چند پھیچھڑوں پر ہی ٹرخا دیا جاتاہے۔

میں نے تو ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو غریب رشتہ داروں کو اتنا کم گوشت دیتے ہیں کہ ان کے ایک وقت کا کھانا تک نہیں بن پاتا اور خود مزے سے نان اور تکے اڑاتے ہیں۔ ارے خدا کے بندو! اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے اس کے بندوں کا حصہ نکالو کیوں کہ یہی قربانی کا اصل مقصد ہے اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا طریقہ بھی۔

اور خدارا مہنگا جانور خرید کرشوبازی سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ اگر مقصد نمائش نہیں ہے تو بھی دس لاکھ کا جانور خریدنا کہاں کی عقلمندی ہے جناب؟ اور اس بار تو  نیب بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔  

براہ مہربانی ان خرافات سے نکلیں اور دس لاکھ میں ایک جانور خریدنے کے بجائے دس لاکھ میں پندرہ یا بیس بکرے یا پھر بارہ گائے خرید کر اللہ کی راہ میں قربان کردیں اس سے ایک تو سینکڑوں مساکین وغرباء کے دو وقت کا کھانا بن جائے گا اور جو ہر جانور کے ہر بال کے بدلے میں آپ کو نیکیاں ملیں گی وہ الگ۔



اس تحریر کی مصنفہ فرحانہ نیازی ابھرتی ہوئی صحافی ہیں۔ وہ ایک معروف نیوز چینل سے وابستہ رہی جبکہ انہیں ایک عالمی نشریاتی ادارے میں خدمات دینے کا تجربہ بھی ہے۔ آج کل وہ فری لانس صحافی ہیں۔ فرحانہ نیازی سے ٹوئیٹر پر رابطہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.