بڑا محافظ بنا پھرتا ہے



Police fail to nab blacksheep within department


تحریر : شاہد انجم

عزت کے رکھوالے، جان و مال کی حفاظت کے دعویدار، ہمہ وقت تیار رہنے کی بات کرنے والے، عوام کی حفاظت پر ڈٹ جانے اور ناانصافی کے خلاف سینہ سپر  ہونے کی وہ روایت معدوم ہو رہی ہے، جن محفوظ مقامات کی بات کی جاتی تھی وہ اب مبینہ عقوبت خانوں کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں سندھ پولیس نے دیں مگر اس میں موجود چند کالی بھیڑوں نے شہداء کے خون کو خاک میں ملانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بارہا  اس روش کو دہرایا گیا۔ کراچی پولیس کے افسران و اہلکاروں نے جس محنت اور لگن سے محکمہ کا تاثر بہتر بنانے کی کوشش کی تھی اب اسی پولیس کے دامن پر  داغ نظر آرہے ہیں۔ بےگناہ شہری ایسے مسیحا کے منتظر ہیں جو پولیس کی وردی میں موجود بھیڑیوں سے ان کی جان چھڑائے۔

پولیس گردی کے حالیہ واقعات میں شہر کے مختلف علاقوں سے شہریوں کو سادہ کپڑوں میں اہلکار مبینہ طور پر  اٹھا کر لے گئے اور نامعلوم مقام پر کئی روز تک مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ متاثرہ شہریوں کے اہل خانہ نے  ہر  دروازہ کھٹکھٹایا لیکن انہیں صرف یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ حراست میں لئے گئے شہری سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث ہیں اور  انہیں رہا  نہیں کیا جا سکتا۔ 

چند روز قبل گلشن اور ناظم آباد سے عدنان اور سیف الدین عرف معراج کو اٹھایا گیا۔ بعد میں انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔  دو ہفتے تک ان کے اہل خانہ نےیہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کے پیارے کس ادارے کی تحویل میں ہیں۔دو ہفتہ بعد عدنان کے  بھائی رضوان کے موبائل فون پر عدنان کے نمبر سے فون کال موصول ہوئی اور یہ پیغام دیا گیا کہ اگر عدنان کی رہائی چاہتے ہو تو چار لاکھ روپے کا فوری بندوبست کرو۔

پیغام میں یہ کہا گیا کہ رقم پہنچانے کیلئے وقت اور مقام کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔ جس کے بعد فون بند ہوگیا۔ اس کال کے کمپنی ریکارڈ کے مطابق اس وقت اس موبائل کا استعمال سپر ہائی وے پر گڈاپ تھانے سے ہوا جس کے چند گھنٹے گزرنے کے بعد دوبارہ کال آئی اور ناگن چورنگی کے قریب پیسے لے کر آنے کو کہا گیا۔

مغوی کا بھائی رقم لے کر جب وہاں پہنچا تو رقم وصول کرنے والے پہلے سے وہاں موجود تھے۔  دوبارہ کال آئی اور کہا کہ موٹر سائیکل سواروں کو رقم دے دو تمہارا بھائی گھر پہنچ جائے گا اور یہاں ایک منٹ بھی مزید رکنا نہیں۔ رضوان خالی ہاتھ گھر پہنچا اور بوڑھی ماں کو تسلی دی کہ رقم دے دی ہے بھائی جلد گھر پہنچ جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ چند گھنٹے بعد سرکاری موبائل عدنان کو نیپا چورنگی پر چھوڑ کر چلی جاتی ہے جس کے بعد عدنان گھر پہنچتا ہے اس واقعہ کی تمام معلومات کراچی پولیس چیف کو دے دی گئیں جس پر انہوں نےکہا کہ اس کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور ملوث اہلکاروں کے خلاف قانونی کاروائی بھی ہوگی۔

اغواء کیے گئے دوسرے شہری  سیف الدین عرف معراج کے اہل خانہ کو بھی اسی جگہ سے کال کی گئی اور ایک لاکھ تاوان کا مطالبہ کیا گیا۔  تاوان کی رقم گڈاپ تھانے کے قریب پیٹرول پمپ پر دینےکاکہاگیا۔  مقررہ مقام اور وقت پر سادہ کپڑوں میں موٹرسائیکل سوار ایک شخص وہاں پہنچا اور تاوان کی رقم لے گیا۔ 

البتہ  اس بار شاید ملزمان کو یہ شک ہوچکا تھا کہ ان کی اس کاروائی کے بارے میں معلومات حاصل کرلی گئیں ہیں توانہوں نے وقت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مغوی سیف الدین عرف معراج کی کئی ہفتے بعد گرفتاری ظاہر کردی اور اگلے روز اسے عدالت میں پیش کرکے اسٹریٹ کرائم اور غیر قانونی اسلحہ کے الزامات عائد کردیئے۔

ان دونوں واقعات کی مکمل شواہد کے ساتھ معلومات اعلی ٰحکام کو دے دی گئیں لیکن کئی روز گزرنے پر بھی تاحال کوئی کارروائی  نہیں کی گئی ہے۔ اعلیٰ افسران کے آئے روز کے دعوے بھی اب تو کھوکھلے معلوم ہوتے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے جیسے مصلحت کے نام پر  پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ہییہ سوال بھی ذہن میں الجھ کر رہ جاتا ہے کہ  اس محکمہ کے اعلیٰ حکام اس مسئلہ کا سدباب کرنے کی بجائے تماشا کیوں دیکھ رہے؟

اگر ایسے معاملات کو اعلیٰ حکام  نے نظرانداز کیا توعوام اور پولیس کے درمیان خلیج بڑھ جائے گی۔  ڈاکٹر امیر شیخ صاحب شہریوں کا آپ پر سے اعتماد اٹھ جائے گا اور پھر آپ کو  پولیس کی ساکھ بحال کرنے میں  سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ذرا سوچئے!




اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.