سزا یا جزا



Initial investigation in attack on Chinese Consulate completed

تحریر: شاہد انجم 

شادیانے  بج رہے تھے، مٹھائی کی ٹوکریاں سر پر اٹھائے پنڈال میں داخل ہونے والوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔  ہر طرف مبارک ہو مبارک ہو کی آوازیں گونج رہی تھی مگر کوئی وقت کا فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ وہ گھڑی کب آئی گی جب  آتش بازی کا مظاہرہ شروع ہو گا اور پھر ایک دم خاموشی چھا جائے گی۔

قریب کی آبادیوں میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے سے اس کے بارے میں سوال جواب کرنا شروع کر دیں گے کہ آخر کار یہ کیا ہو رہا ہے ، کس بات کی خوشیاں منائی جارہی ہیں، شامیانہ کے ساتھ بیٹھا مستانہ بھی حیران پریشان یہ سب دیکھ رہا تھا اور موقع کی تلاش میں تھا کہ کئی روز سے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا کوئی تو ہو جو اسے بھی یہ دعوت دے کہ وہ خوشیوں میں شریک ہو سکے۔   

مایوسی غروب سے طلوع کی طرف بڑھتی جا رہی تھی، لگ ایسا رہا تھا کہ یہاں چند چہرے ہی ان خوشیوں کو منا سکیں گے اس لئے کہ اس پروگرام کے لیے کوئی ٹھوس شواہد حاصل نہیں ہو پائے اور جن کے پاس یہ شواہد تھے ان کو تو پہلے ہی نظر انداز کر دیا گیا تھا۔   

اس کہانی کا مقصد چند روز قبل کلفٹن کے علاقے میں سفارت خانے پر  حملے میں پولیس اہلکاروں اور شہریوں کی شہادت کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کو بھی واصل جہنم کیاگیا۔  آپریشن کو چند لمحے ہی گزرے تھے کہ بعض پولیس افسران کی طرف سے حکومتی ارکان کو ایسے نام پیش کئے جارہے تھے کہ انہوں نے دہشت گردوں کے خاتمہ کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

مگر شاید وہ ان تمام حقائق سے خود بھی ابھی ناواقف تھے اور انہیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ہلاک دہشت گردوں نے پہلے  پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا اور اس کے بعد انہوں نے سفارت خانے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔  ناکامی کے بعد ان کی ہلاکت اپنے ہی ہتھیاروں سے ہوئی،  جس کی مبینہ تصدیق پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے ہورہی ہے۔   

رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مارے گئے پہلے دہشت گرد کو پیٹ میں لگی گولی کلاشنکوف کی تھی جو عمارت کی چھت پر مورچے سے اہلکار نے چلائی تھی جس سے دہشت گرد زخمی ہوا اور اس کے بعد اس نے اپنے ہی ہتھیار سے خود کو گولی مار لی، کیونکہ  شاید وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ گولی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے اور اسے گرفتاری کا خوف بھی تھا۔

اب تک کی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دیگر دونوں دہشت گردوں کی ہلاکت بھی اپنے ہی ہتھیاروں سے ہوئی ہے۔ پولیس کے بعض افسران کی طرف سے یہ بھی بیانات دیئے جارہے ہیں کہ دہشت گرد حب کے راستے کراچی میں داخل ہوئے اور مائی کلاچی سے ہوتے ہوئے سفارت خانے پہنچے۔   

مگر ابھی تک تحقیقاتی ادارے اس بات تک نہیں پہنچ سکے کہ دہشت گردوں نے کارروائی سے قبل کبھی اس واردات کے لئے ریکی کی یا کراچی آئے جبکہ غور طلب بعد یہ ہے کہ دہشت گردوں نے ڈھائی ماہ قبل اس واردات کے لئے پلاننگ شروع کی تھی اور نصف اگست میں کراچی آئے تھے اور ایک ہفتہ تک وہ صدر اور لیاری کے ہوٹل میں رہائش پذیر رہے اور اسی دوران انہوں نے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی اس تمام تحقیقات کے بعد یہ فیصلہ کرنا ارباب اختیار کے ہاتھ میں ہے کہ کیا متعلقہ افسران سزا کے حقدار ہیں یا جزا کے



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
!

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.