انصاف حسب ذائقہ

Justice is mandatory to survive economic and defense issues

تحریر: عبید شاہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے ملک شام میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا  اب بادشاہ یا  تو  ظالم ہوتے ہیں یا رحم دل،  ہماری کہانی کا بادشاہ ظالم  ہے۔

بادشاہ نے اپنے ملک میں انصاف کا ایک انوکھا طریقہ اپنا  رکھا تھا۔  اس کی ریاست میں کوئی شخص کسی بھی الزام میں گرفتار ہوتا تو گواہ و ثبوت کے بجائے اسےایک میدان میں لا کھڑا کیا جاتا پورا شہر جمع ہوتا اور ایک میلہ سا لگ جا تا۔ ملزم کو نہ صفائی کا موقع دیا جاتا نہ گواہ نہ ثبوت۔

ملزم کو دو دروازوں کے درمیان لا کھڑا کیا جاتا جہاں اسے کسی ایک دروازے کا انتخاب کرنا ہوتا۔  ایک دروازے کے پیچھے بھوکا شیر ہوتا تو ایک دروازے کے پیچھے خوبصورت حسینہ، جو اس کا انعام ٹھہرتی۔  ہر ملزم خواہ گناہ گار ہو نہ ہو ایک دروازہ کھول کر اپنی قسمت کا فیصلہ کر لیتا، اگر وہ شیر کانوالہ بنتا تو لوگ بوجھل دل کیساتھ گھر لوٹ جاتے اگر اس کی قسمت میں حسینہ اور بادشاہ کا انعام ٹھہرتا تو ملزم کو داد وتحسین ملتی۔

غرض انصاف اس ملک میں کسی شغل میلہ سے کم نہ تھا،  اس کہانی کو ذہن میں رکھ کر سوچیں تو انصاف میرے ملک میں بھی کسی  شغل سے کم نہیں۔  اس شغل کی تاریخ تو بہت لمبی ہے آمریت کے دور سے سجنے والا  یہ شغل میلہ آج تک جاری ہے۔

 اگر ہم صرف جمہوری دور میں انصاف کا شغل دیکھیں تو یہ ہمیشہ حسب ذائقہ ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے  کیونکہ اس اس کو استعمال کرنے والی مقتدر قوت کا بلڈ پریشر جو ہائی رہتا ہے۔  اس حسب ذائقہ انصاف کا مقصد مجرم کو سزا دینا ہر گز نہیں ہوتا بلکہ دو دروازوں میں سے کسی ایک دروازے کا انتخاب کرانا ہی ہوتا ہے اور اتفاق دیکھئے کہ ان ملزمان کے حصے میں کبھی شیر کا دروازہ نہیں آتا۔

 مملکت خداداد میں انصاف و احتساب کے لگنے والے نعروں میں کوئی خائن نشان عبرت نہیں بنا،  البتہ اگلی باری کے لیے گنگا ضرور نہا آتا ہے۔ گیارہ سالہ آمریت کے بعد جمہوریت لوٹتی ہے  اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنتی ہیں لیکن دو سال دو ماہ چار دن میں ان کی چھٹی کر دی جاتی ہے۔  ان پر جو الزامات لگائے گئے  وہ تین دہائیوں سے آج تک لگتے آرہے ہیں۔ اتفاق دیکھیں کہ آج وہی الزام نوازشریف پر لگے ہیں۔  وہ الزامات یہ ہیں۔

توہین رسالت
بھارتی مراسم
کرپشن

 ان دونوں ملزمان  کو پکڑا گیا لیکن دروازہ انعام و اکرام کا  ہی کھلا وہ بھی  ایک نئے اقتدار  کی شکل میں۔  تبدیلی کے نعروں اور نئے پاکستان میں جینے والوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ انصاف کا یہ شغل آپ کی پیدائش سے قبل  سے چلا آرہا ہے۔ کردار و  واقعات ایسے ہی ہیں جیسے کہ بلاک بسٹر فلم کا ری میک ہو، مثال کے طور پر

زرداری صاحب پر 1990 کا انڑ  کیس ہو یا 2018 منی لانڈرنگ (انور مجید) کیس۔
 نواز شریف پر 1993 کو آپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی اسکینڈل ہو یا ایون فیلڈ ریفرنس 2018
سرے محل سے رائیونڈ محل
میمو گیٹ ہو کہ پاناما
پکا قلعہ ہو یا سانحہ ماڈل ٹاؤن
بارہ مئی ہو یا سانحہ بلدیہ
لاپتہ افراد کا معاملہ ہو یا ماورائے عدالت قتل

کوئی مجرم پکڑ میں نہیں آیا، لیکن شغل بڑا لگا۔ ان الزامات کی زد میں آنے والا ہر مجرم بھوکے شیر کا نوالہ کبھی نہیں بنا اور بنے بھی کیوں؟ میلے کے یہ کردار تفریح کا سامان جو ہیں، حد تو یہ ہے کہ شہر میں  قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھنے والوں کو  نشان عبرت بنانے کے بجائے"ل" اور "پ"  کے فرق سے قابل قبول بنالیا جاتا ہے تاکہ وقت پڑنے پر حسب ذائقہ استعمال کیا جاسکے۔

جب دوسری جنگِ عظیم میں برطانوی وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل کو اْس کے سپہ سالار نے بتایا کہ ہم شکست کھانے والے ہیں اور جاپانی فوجیں لندن کا محاصرہ کر چکی ہیں تو اْس نے صرف ایک سوال کیا،

’’کیا ہماری عدالتیں ابھی تک انصاف کر رہی ہیں…؟‘‘
جواب ملا… جی ہاں!
تو چرچل نے کہا:
’’پھر ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ جاپانی فوجوں کو آخرکار پسپا ہونا پڑا۔  

عدل کے معنی حق دار کو اس کا پورا حق ادا کر دینا ہے۔ اسلام میں عدل و انصاف پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یہ وہ وصف ہے جسے اپنانے والی اقوام سربلندی و سرفرازی سے ہم کنار ہوتی ہیں، اور جو قومیں اس کو حسب ذائقہ استعمال کرتی ہیں وہ زوال پذیر ہو کر تباہی و بربادی سے دوچار ہوجاتی ہیں۔

عظیم چینی فلسفی ’’کنفیوشس ‘‘سے کسی نے پوچھا کہ ’’اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں ہوں۔ انصاف، معیشت اور دفاع …اور بہ وجہ مجبوری کسی چیز کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس چیز کو ترک کیا جائے؟

کنفیوشس نے جواب دیا… ’’دفاع کو ترک کردو‘‘

سوال کرنے والے نے پھر پوچھا  اگر باقی دو چیزوں انصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنا لازمی ہو تو کیا کیا جائے؟

 کنفیوشس نے جواب دیا ’’معیشت کو چھوڑدو‘‘

 اس پر سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا
معیشت اور دفاع کو ترک کیا تو قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کردے گا؟

 کنفیوشس نے جواب دیا  نہیں! ایسا نہیں ہوگا،  بلکہ انصاف کی وجہ سے اْس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگا اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اِس طرح نکالیں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے۔

میرے ملک کی مقتدر قوتوں کی ترجیح دفاع یا معیشت ہی رہی ہے، عدل و انصاف کے نفاذ میں سنجیدگی کبھی نہیں دکھائی گئی۔  

چند روز قبل ایک صحافی نے احتساب عدالت سے ضمانت منظور کروانے والے سابق صدر آصف علی زرداری سے سوال کیا کہ آپ کی ضمانت ہوگئی اب ڈر تو نہیں لگ رہا؟  صحافی کے اس سوال پر مرد آہن کا قہقہہ ملکی عدل و انصاف کا چہرہ بے نقاب کر رہا تھا، شاید وہ جانتے ہیں کہ اب انہیں  اور ان جیسوں کو حسب ذائقہ استعمال کیے جانے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔



اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدان صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے  فیس بک  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.